شاہی بیگمات کا ذوق جمال اور علم و ادب نوازی کا شوق

ہندوستان پر سینکڑوں سال تک حکومت کرنے والے سلاطین جہاں رزم و بزم میں یکتائے روزگار تھے۔ اُسی طرح ان کی بیگمات اورشہزادیاں بھی منفرد المثال تھیں۔ جس طرح یہ سلاطین اور شہزادے فاتح اورکشور کشا نیز علم دوست اور ادب نوازتھے۔ اُسی طرح شاہی محلوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی فن حرب و ضرب میں ماہر اور علم وادب کی دلدادہ تھیں۔ ملک کی پہلی خاتون حکمراں رضیہ سلطانہ سے لے کر آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی ملکہ زینت محل اوراودھ کے نواب واجد علی شاہ کی ملکہ حضرت محل تک کی داستانِ حرب وضرب اورواقعاتِ علم پروری تاریخ کے صفحات پرجگمگارہے ہیں۔


ہندوستان کے شاہی محلات ہر دور میں فکر وفن اورعلم وادب کے مراکز رہے ہیں۔ یہاں اہل علم کی قدر افزائی ہوتی رہی ہے۔ اسی کے ساتھ اپنے دور کے نامور دانشور اور حکماء وعلماء شہزادوں اور شہزادیوں کی تربیت کے لیے رکھے جاتے تھے۔ فن حرب اور شہسواری نہ صرف شہزادوں کو سکھائے جاتے تھے بلکہ شہزادیوں کو بھی ان فنون میں یکتائے روزگار بنایاجاتا تھا۔ حالانکہ خواتین کو جنگوں میں حصہ لینے کے مواقع کم ہی ملتے تھے، مگرعلمی محفلوں میں ان کی شرکت خوب خوب ہوا کرتی تھی۔ ایسے ماحول میں تربیت پانے والی خواتین یکتائے روزگار ہواکرتی تھیں اور پس پردہ رہ کربھی اپنے دور کی سیاست پر اثرانداز ہواکرتی تھیں۔


رضیہ سلطانہ ہندوستانی تاریخ کی تنہا خاتون حکمراں تھی۔ اس کے بعد یہ موقع کسی شہزادی کو نصیب نہیں ہوا مگر ساتھ ہی ساتھ تاریخ ایسے واقعات سے بھی خالی نہیں کہ خواتین نے ہندوستان کی سیاست پر اثر ڈالا اور بلاواسطہ نہ سہی لیکن بالواسطہ ملک پرحکومت کی۔ اس ضمن میں ملکہ نور جہاں، چاندبی بی اور ملکہ حضرت محل جیسی کئی شاہی بیگمات کے نام آتے ہیں۔ محلاتی سازشوں میں بھی شاہی بیگمات پیش پیش رہا کرتی تھیں اور اپنے بیٹوں کو مسند شاہی تک پہنچانے کے لیے وہ ہرممکن کوشش کیا کرتی تھیں۔ کئی بار ان بیگمات کے ناخنِ تدبیر ہی سیاسی گتھیوں کو سلجھایا کرتے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب شہزادہ سلیم نے اپنے باپ جلال الدین محمد اکبر کے خلاف بغاوت کی تو اس مسئلے کو سلجھانے کے لیے اکبر کی ذی فہم ملکہ سلیمہ سلطانہ بیگم سامنے آئی اور اسی کی سمجھداری نے سلیم کومصالحت پر مجبور کیا۔


ہندوستان کی شاہی بیگمات چونکہ پردے میں رہتی تھیں اور انہیں میدان جنگ میں لڑنے کے مواقع کم ہی ملتے تھے، لہٰذا ان کی بیشتر توجہ علم وادب کی طرف تھی یہی وجہ ہے کہ یہ اچھی شاعرات اورنثر نگار ثابت ہوتی تھیں۔ ان بیگمات میں کئی اچھی ادیبہ، اور صاحب دیوان شاعرہ تھیں توکئی مورخہ اور عالمہ تھیں۔ ان میں گلبدن بیگم، جاناں بیگم، ملکہ نورجہاں، ملکہ ممتازمحل، جہاں آرا بیگم، زیب النساء بیگم، اورزینت النساء بیگم کے نام لیے جاسکتے ہیں۔


شاہی خواتین کو علم و ادب کے ساتھ ساتھ فن مصوری، خطاطی اور عمارت سازی کا بھی شوق تھا اور انھوں نے اس میدان میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ رضیہ سلطانہ اپنے باپ شمس الدین التمش کے مقبرے کو تعمیرکرایا۔ آج اس مقبرے کا بیشتر حصہ منہدم ہوچکاہے مگر جو کچھ باقی ہے وہ رضیہ کے ذوق کی بلندی کاپتہ دینے کے لیے کافی ہے۔ بادشاہ ہمایوں کی بیوہ حاجی بیگم نے اپنے شوہر کی قبرپر جو عمارت تعمیر کرائی وہ تاج محل کی تعمیر کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئی۔


اسی طرح نور جہاں نے اعتمادالدولہ کا عظیم الشان مقبرہ تعمیر کراکر اپنے ذوق عمارت سازی سے دنیا کو آگاہ کردیا ہے۔ دلی کی معروف فتحپوری مسجد کی تعمیر، شاہ جہاں کی ایک ملکہ نے کرایا تو دریا گنج کی گٹھا مسجدایک شہزادی کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ الغرض ہندوستان کی شاہی خواتین کے کارنامے بھی بے شمار ہیں، مگر انہیں سامنے لانے کی کوشش بہت کم ہوئی ہے۔


رضیہ سلطان، ملک کی اولین خاتون حکمراں تھی، جس نے ملک پر شاندار حکمرانی کی مگر اسے صرف اس لیے تخت سے ہٹنا پڑا کہ وہ مرد نہیں تھی۔ جس زمانے میں بھارت میں خواتین کو ’’ستی‘‘ ہونا پڑتا تھا اس دور میں رضیہ سلطان نے حکمرانی کی۔ وہ حکمرانی کی اہل بھی تھی مگر مردوں کے اقتدار والے سماج نے صرف اس لئے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ ایک عورت تھی۔ اس نے مقبرہ التمش کی تعمیر بھی کرائی۔ باحوصلہ شاہی بیگمات میں ایک نام حاجی بیگم کا ہے جو، بادشاہ ہمایوں کی بیوی تھی اورمشکل حالات میں اپنے شوہر کا سہارا بنی رہی۔ شوہر کے انتقال کے بعد اس نے اپنے کم عمربیٹے اکبر کی سرپرستی کرتے ہوئے حکومت سنبھالی، اس نے مقبرہ ہمایوں کی تعمیرکرائی۔ جو بعد میں تاج محل کے لیے ماڈل ثابت ہوا۔ اکبر کو بہت کم عمری میں حکومت مل گئی تھی جو اس کے اتالیق کے ذریعے چلتی تھی مگر اس حکومت میں حاجی بیگم کی مرضی بھی شامل رہتی تھی اور ہندوستان کے سیاہ و سپید میں اس کے اختیارات بھی شامل رہتے تھے۔


ایسی ہی بیگمات میں ایک جہانگیر کی ملکہ نورجہاں بھی شامل تھی جو نہ صرف علم وادب کا ذوق رکھتی تھی بلکہ آرکٹکچر میں بھی جمالیاتی حس کی مالکہ تھی۔ وہ بچپن سے ہی بے حد ذہین تھی۔ اس کے باپ کا نام مرزا غیاث بیگ تھا جو کہ ایک ایرانی شخص تھا مگر حالات نے اسے اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ ابھی وہ پانچ سال کی ہوپائی تھی کہ اس کے باپ مرزاغیاث نے جشن نوروز کے موقع پر بیٹی کانام رکھنے کے لئے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ رسم کے مطابق قرآن سے نام کے لئے فال نکالا گیا اور سرصفحہ جو آیت نکلی اس میں پہلا لفظ ’’شمس‘‘ تھا جسے ایرانی نسل خواتین نے فال نیک سمجھا اور بچی کا نام شمس النساء نام تجویز کیا گیا لیکن یہ ذہین وفطین بچی پہلے ہی مہرالنساء کے نام سے مشہور ہوچکی تھی لہٰذا ’’شمس النسائ‘‘ نام کو عام رواج نہیں ملا۔ ویسے آج دنیا اسے ’’ملکہ نور جہاں‘‘ کے نام سے جانتی ہے کیونکہ جہانگیر کی حکومت کی طرف سے اسے پہلے ’’نورمحل‘‘ اور پھر ’’نورجہاں‘‘ کاخطاب دیا گیا تھا۔ مہرالنساء کی شادی ابتدا میں ایک بہادرنوجوان علی قلی خاں سے ہوئی تھی، جو شاہی ملازم تھا اور حکومت وقت کا منظورنظر بھی۔ اسے شہزادہ سلیم سے قربت تھی اور شہزادہ کی عنایتوں سے سرفراز ہوتارہتاتھا۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ بنگال میں رہتی تھی مگرحالات نے پلٹا کھایا اور مہر النساء بیوہ ہوکر آگرہ آگئی جہاں شاہی دربار میں اس کے والد کی ملازمت تھی۔ اس کے بعدجہانگیر نے اس سے نکاح کرلیا اور وہ ہندوستان کی ملکہ بن گئی۔ اس نے ملکہ کے طور پر اپنے اختیارات کو بھرپور استعمال کیا۔ وہ پردے میں رہ کر بھی حکومت کے سیاہ وسپید کی مالک تھی۔ بادشاہ کو شراب اور کباب کے علاوہ کسی چیز سے غرض نہیں تھی اورکاروبار حکومت نورجہاں کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے کئی عمارتوں کی تعمیر بھی کرائی۔


ہندوستان کی تاریخ میں جن دیگر بیگمات کا نام اہمیت کے ساتھ لیا جاتا ہے اس میں نورجہاں کی بھتیجی ارجمند بانو بھی ہے جسے دنیا ممتازمحل کے نام سے جانتی ہے۔ ممتا زکی یاد میں ہی شاہجہاں نے تاج محل تعمیر کرایا تھا۔ شاہجہاں کی اس ملکہ کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ وہ حسین وجمیل ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد ذہین بھی تھی۔ شاہجہاں کی ایک دوسری بیگم کوبھی اس کے تعمیراتی شوق کے لئے جاناجاتا ہے، یہ بیگم فتح پوری تھی جس نے چاندی چوک کی مسجد فتحپوری کی تعمیر کرائی تھی۔ شاہجہان کی بیگمات میں ایک بیگم سرہندی بھی تھی جس نے مسجد سرہندی وباغ سرہندی کی تعمیرکرائی۔


شاہجہاں کی بیگمات ہی نہیں بلکہ اس کی بیٹیاں بھی بہت پڑھی لکھی اور دینددار تھیں۔ جہاں آرا بیگم، شاہجہاں کی بیٹی تھی اور ادیبہ وشاعرہ تھی۔ اس نے اجمیر میں کئی تعمیرات کرائیں۔ مغل شہزادیون میں ایک نام زینت النساء کا بھی ہے جس نے دریا گنج کی گٹھامسجد کی تعمیرکرائی تھی۔ یہیں شہزادی کی قبر بھی ہے۔ مغل شہزادی روشن آراء نے روشن آرا باغ کی تعمیرکرائی، اس شہزادی کی اہمیت کئی اعتبار سے مسلم ہے۔ اورنگ آبادی بیگم، بادشاہ اورنگ زیب کی بیوی تھی، اس نے دلی میں کئی تعمیرات کرائیں۔ اسی طرح بیگم اکبرآبادی نے اکبرآبادی مسجد کی تعمیرکرائی اور فخرالنساء خانم نے فخرالمساجد بنوایا۔ تعمیرات کا شوق رکھنے والی بیگمات میں ایک تھی ماہم اتکہ، جو بادشاہ اکبر کی رضاعی ماں تھی۔ بادشاہ بے حد احترام کرتا تھا، اس نے مسجد خیرالمنازل تعمیر کرائی تھی جو پرانا قلعہ کے سامنے واقع ہے اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے کنٹرول میں ہونے کے باوجود آباد ہے۔ یہاں مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ بھی تعمیرکیا گیا تھا جس کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں۔


امراء کی بیگمات بھی علم وفن اور مصوری، خطاطی و آرکٹکچر کا شوق رکھتی تھیں جن میں ایک نام نواب قدسیہ زمانی کا ہے۔ انھوں نے دلی میں کئی تعمیرات کرائیں جن میں درگاہ شاہ مرداں اورکچھ دیگرتعمیرات شامل ہیں۔ یہ علم وداب کا شوق رکھتی تھیں اور نیک کاموں میں اپنی دولت خرچ کرتی تھیں۔ عہد مغل اور اس سے قبل کی سلطنت میں بڑی تعداد ایسی خواتین کی تھی جو علم وادب سے گہری وابستگی رکھتی تھیں اور اپنی دولت بھی اس کے لئے خرچ کرتی تھیں۔ ان بیگمات اور شہزادیوں میں چند نام یہ ہیں،


گلبدن بیگم، گلرخ بیگم، سلیم سلطان بیگم، ماہم بیگم، جاناں بیگم، زیب النساء بیگم، حمیدہ بانو، گیتی آرا، سعیدہ بانو، مبارکہ وغیرہ۔ لکھنو کی بیگم حضرت محل اور آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی ملکہ زینت محل کے بارے میں یہ بات عام ہے کہ انھوں نے کئی موقع پر باقاعدہ انگریزوں سے لوہا لینے کی کوشش کی۔


علم وفن کی خدمت کرنے والی اوروقت پڑنے پر میدان جنگ میں اترجانے والی مسلم خواتین ہندوستان کی تاریخ میں کئی مل جاتی ہیں اور وہ دلی تک ہی محدود نہیں تھیں بلکہ باقی ملک میں بھی پھیلی ہوئی تھیں۔ جنوبی ہند میں بھی مسلم ریاستیں تھیں جو کبھی دلی کے ماتحت رہیں تو کبھی خود مختار رہیں اور ان سلطنتوں میں بھی خواتین کا خاصا رتبہ تھا۔ چاند بی بی جنوبی ہند سے ہی تعلق رکھنے والی تھی جس نے باقاعدہ جنگ میں حصہ لیا تھا۔ تغلق عہد میں مشرقی ریاست کی راجدھانی جونپور ہوا کرتی تھی جہاں کے سلاطین کی علم پروری کے سبب ہی اس خطے کو ’’شیرازِ ہند‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہاں بی بی راجی کی تعمیرکردہ لال دروازہ مسجد فن تعمیر کی شاہکار ہے اور آج بھی پکار پکار کر کہہ رہی ہے یہاں خواتین کا ذوق تعمیر مردوں سے کسی طرح کم نہیں تھا۔ اسی طرح گجرات میں بھی مسلم خواتین کی بہت سی شاندار تعمیرات ہیں جن میں سے کچھ آج تک محفوظ ہیں۔