شاعر کی بیوی
بہت مظلوم ہے اس شہر میں شاعر کی گھر والی
محبت کی غذا سے اب تک اس کا پیٹ ہے خالی
یہ گوری رات کی تنہائیوں میں ہو گئی کالی
کراچی میں جو رہتی ہے یہ ایسی ہے میاں والی
ندیمؔ و فیضؔ کے نقش قدم پر تاج ہے اس کا
ادب کی خاک پر بیٹھا ہوا سرتاج ہے اس کا
یہ اس شاعر کی بیوی ہے جو شاعر خاندانی ہے
غزل جس کی زمین تنگ میں بھی آسمانی ہے
اس انٹرنیشنل شاعر میں دریا کی روانی ہے
دبئی جدہ، ابو ظہبی تک اس نے خاک چھانی ہے
غزل پڑھنے سے بالکل ایکٹر معلوم ہوتا ہے
بڑھی ہیں اس قدر زلفیں جگرؔ معلوم ہوتا ہے
گزرتی ہے ہمیشہ گھر سے باہر زندگی اس کی
بہت محدود ہو کر رہ گئی ہے فیملی اس کی
سدا کٹتی ہے بزم شاعری میں رات بھی اس کی
سحر کے چھ بجے ہوتی ہے اکثر واپسی اس کی
مگر شاعر کی بیوی پھر بھی اس کی نام لیوا ہے
جو دن میں تو سہاگن ہے مگر راتوں کو بیوہ ہے
گزرتی ہے بڑی مشکل سے بیچاری کی رات آخر
کلام جوشؔ پڑھ کے غم سے پاتی ہے نجات آخر
رہے گی گھر میں تنہا کب تلک عورت کی ذات آخر
نہ ہو شوہر تو پڑھ لیتی ہے ''یادوں کی برات'' آخر
کلام جوشؔ تنہائی میں یہ روزانہ پڑھتی ہے
کہ جو رضوان پڑھتا ہے وہی رضوانہ پڑھتی ہے
ابھی گڈو ہوا ہے اور ابھی امید سیما ہے
جو قبل از وقت آ پہنچے یہ اک ایسا ضمیمہ ہے
بنا دے گھر کو تاریخی یہی شاعر کا ایما ہے
اگر شاعر کا گھر دیکھو تو آثار قدیمہ ہے
نمائش اس طرح شاعر نے بچوں کی لگائی ہے
کہ جیسے اس کے مجموعے کی رسم رونمائی ہے
کہا شاعر نے بیوی سے کہ تم میری قیافہ ہو
مرے بچے مرا مضموں ہیں تم خالی لفافہ ہو
حدود زندگی میں غیر معمولی اضافہ ہو
مرے دل کی حکومت کا تمہیں دارالخلافہ ہو
نہ جس سے پیاس بجھ پائے وہ ''کے ایم سی'' کا نل تم ہو
حقیقت یہ ہے میری غیر مطبوعہ غزل تم ہو