ڈوبتے پاکستان کو بچانا سیاست سے زیادہ ضروری ہے
آئیے آپ کو ملک پاکستان میں ہم کچھ آج کل کے مناظر دکھاتے ہیں:
"وہ دیکھیے سینکڑوں دیہاتیوں کو۔ آنکھوں کے سامنے مال مویشی بہتے دیکھ رہے۔ صرف جان بچی ہے، وہ بھی تب تک جب تک اس اونچی عمارت کی چھت میسر ہے۔ ٹی وی پر اک دم ہیڈ لائن آئی: "پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے ق لیگ کے دس ووٹ سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر گننے سے انکار کر دیا۔ حمزہ شہباز9 17 ووٹ لے کر وزیر اعلیٰ برقرار۔ آئیے ماہرین کی رائے لیتے ہیں۔ اگلے چوبیس گھنٹے تک ماہرین کی آرا ہی ختم نہیں ہوتیں"
ایک اور منظر دیکھیے:
شہر کی گلیاں بازار طوفانی بارشوں کے باعث ندی نالوں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ گھروں میں پانی گھس چکا ہے۔ فریج، ٹی وی، کولر ،استری اور دیگر گھر کا سامان پانی میں بہتا جا رہا ہے۔ غریب لوگ اپنی عمر بھر کی کمائی لٹتے دیکھ رہے ہیں۔ میڈیا: "سپریم کورٹ نے تین رکنی بنچ برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی ڈی ایم نے کیس کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ آئیے چل کر اس پر بھی ماہرین کی آرا لیتے ہیں۔ " جو اللہ کے حکم سے ٹی وی سکرینوں سے کسی نئے ڈرامے تک چپکی رہنی ہیں۔
یہ بھی دیکھ لی جیے:
خیبر پختون خواہ، بلوچستان، سندھ اور پنجاب۔ کوئی ایسا صوبہ نہیں جہاں زندگی متاثر نہ ہوئی ہو۔ درست اعداد و شمار اب تک میسر نہیں، تاہم حکام کا کہنا ہے سینکڑوں جانیں جا چکی ہیں۔ آٹھ ڈیم ٹوٹ چکے ہیں۔ اور آج ابھی پی ڈی ایم اے نے وارننگ جاری کی ہے کہ دریائے راوی، ستلچ اور چناب میں سیلاب کا خطرہ ہے۔ میڈیا: "سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد خیبر پختون خواہ اور پنجاب کی حکمران جماعت کا اظہار تشکر۔" یعنی ملک ڈوب رہا ہے اور ق لیگ سمیت پی ٹی آئی جشن اور خوشیاں منانے میں مصروف ہے۔ صرف یہی نہیں، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو بھی غصہ ہے کہ ریاستی مشینری ان سے زیادتی کر رہی ہے۔ وہ صرف اس کے اظہار میں مصروف ہیں۔ زرداری صاحب کو توڑ جوڑ سے آگے کچھ نظر نہیں آ رہا۔ شہباز حکومت بھی صرف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔
میڈیا آج کل صرف یہی چیخ چیخ کر بتا رہا ہے۔ سیلاب سے لٹتے شہریوں کی خبر ہے، لیکن صرف اس طرح جیسے روزمرہ کی خبر ہو۔ کیا واقعی سینکڑوں انسانوں کی جان مال کا ضیاع، کروڑوں اربوں کا مالی نقصان، زندگی معطل، روزمرہ کی خبر ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں؟ دوسری طرف ذرا سی کرسی کی ہل جل اتنی وقعت رکھتی ہے کہ ہر چیز بھلا کر اس کی کوریج میں دن رات جت جایا جائے؟ چاہے ملک درہم برہم ہو جائے۔
میڈیا کی ان حرکات پر سوالات تو اٹھتے ہیں کہ کیا اس کا کام صرف اقتدار کی غلام گردشوں سے نکلتے بیانات سے اخذ شدہ بیانیہ بنانا ہے؟ یا کچھ اور بھی ہے؟ کیا عوام ،خاص طور پر دیہاتوں میں بسنے والی غریب، کی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی، کہ اس تکلیف کی گھڑی میں ان کی آواز بنا جائے؟
کیوں؟ آخر کیوں؟ کیا کوئی ہے جو میڈیا کی غیر ذمہ داری پر اس کا احتساب کر سکے؟ ان کو بتا سکے کہ آپ حکمران اور عوام کے مابین پل ہیں۔ آپ کی اولین ترجیح عوام کا دکھ درد حکمرانوں تک پہنچانا ہے۔ نہ کہ حکمراوں کا دکھ درد عوام تک پہنچا کر فارغ ہو جانا ہے۔
اس وقت اگر ذمہ دار میڈیا ہوتا تو عوام کو پنجابیوں کے وزیر اعلیٰ کی تلاش میں پاگل کرنے کی بجائے، حکمرانوں کو احساس دلاتا کہ بند کرو اپنی جوڑ توڑ۔ عوام کے نمائندے ہو تو عوام کو دیکھو کس حال میں ہے۔ شرم آنی چاہیے اس تکلیف کی گھڑی میں آپ کو جشن مناتے ہوئے۔ ماتم اس وقت عدالتی فیصلوں سے زیادہ، اس چیز کا ہے کہ ہر سال سیلاب اتنا کچھ بہا کر لے جاتا ہے، بند کیوں نہیں اب تک باندھے جا سکے؟
ذمہ دار میڈیا ہوتا تو اب تک کم از کم ہمیں درست متاثرین کی تعداد ہی پتہ ہوتی۔ اگر میڈیا اپنی اسکرینز کا ٹائم متاثرین پر خرچ کرتا تو ماندہ عوام ان کی امداد کا بندوبست کرنے میں مصروف ہوتی، نہ کہ کرسی پر لگتی قلابازیوں پر محظوظ ہونے میں۔ حکمرانوں پر بھی دباؤ ہوتا کہ اپنے آپس کے دنگے چھوڑ کر عوام کو بھی دیکھیں۔ عوام میں بھائی چارہ اور ایثار کی وہی روح بیدار ہوتی جو 2005 کے زلزلے میں ہوئی تھی۔ میڈیا کی اسکرینز پر این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کے حکام سے سوال و جواب چل رہا ہوتا کہ ان کی تمام آفت سے نمٹنے کی منصوبہ سازی کیا ہے؟ وہ کون سے وسائل ہیں، جن کی کمی کا وہ شکار ہیں؟ پھر ان کا تھوڑا بہت احتساب بھی ہوتا کہ انہوں نے آج تک کیا کیا ہے؟ ماحولیاتی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ اس سال بھی پچھلے سال سے ستاسی فیصد بارشیں زیادہ ہیں۔ اگلے سال ہو سکتا ہے، پھر اسی طرح کے حالات ہوں۔ ان کی تیاری کیا ہے؟
آہ کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ یوں لگتا ہے میڈیا رولنگ الیٹ کو لائم لائٹ میں رکھنے کا آلہ ہے۔ جو عوام کے دھیان کو بٹائے رکھے اور عوام اپنے مسائل کی بجائے توجہ الٹی سیدھی سنسنی خیز چیزوں میں لگائے رکھیں۔ جانے پھر میڈیا کس منہ سے کھڑے ہو کر اپنی آزادی کی جنگ میں عوام کو شریک ہونے کا مطالبہ کرتا ہے؟ اگر غریب عوام کی بپتاحکام بالا کے کانوں پر جوں نہیں رینگوا پا رہی تو اس میں میڈیا مکمل ذمہ دار ہے۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری نہیں پہچانے گا تو ہم یوں ہی لٹتے رہیں گے اور کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔