بچوں کے لیے پیارے نبیﷺ کی سیرت: چھٹی قسط
پیارے بچوّ ۔ان دنوں مکہ شریف میں کسی کی حکومت نہ تھی۔اور نہ کو ایسا ادارہ تھا جو شہر میں امن وامان قائم رکھ سکے۔اس زمانے میں سارے عرب میں جہالت تھی۔لوگ نیکی بدی سے واقف نہ تھے۔جرم بہت ہوتے تھے۔قتل،چوری،اور اغوا وغیرہ کا زورتھا۔بس جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ تھا۔ان حالات میں مکہ شریف میں چند آدمیوں کو امن قائم رکھنے کی ضرورت کا شدّت سے احساس ہوا۔ان میں سے زیادہ مشہور دو آدمی تھے ایک تو آپﷺ کے چچا زبیر اور دوسرے ایک سردار عبداللہ بن جدعان۔
ان دونوں نے مل کر ایک انجمن (حِلف الفضول) بنائی تاکہ امن وامان قائم رکھنے اور بے گناہوں کو پریشان ہونے سے بچانے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایا جائے۔
یہ لوگ ایک مقررہ وقت پر عبداللہ بن جدعان کے گھر میں جمع ہوئے تاکہ جو شرائط طے ہوں نہیں لکھ لیا جائے اور اس پر لوگوں کے دستخط لئے جائیں اور اس معاہدہ میں یہ باتیں طے کی گئی تھیں ۔
۱۔ ہم ایک دوسرے کی حق تلفی نہیں کریں گے۔
۲۔ہم طاقت ور سے کمزور کا اور مقیم سے مسافر کا حق دلواکر رہیں گے۔
۳۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کرتے رہیں گے۔
اس معاہدے کا نام حلف الفضول رکھا گیا کیونکہ اس سے کئی سو سال پہلے ایسا ہی معاہدہ تین آدمیوں نے لکھاتھا۔جن کے نام کا پہلا لفظ فضل تھا۔اور فضل کی جمع فضول ہوتی ہے۔اس لیے اس معاہدہ کا نام فضول طے پایا تھا۔اب ان لوگوں نے بھی اس نام کو پسند کیا اور یہ معاہدہ لکھا گیاجس پر ان سب کی گواہی ثابت کردی گئی لیکن جب لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس جانے لگے تو عبداللہ بن جدعان نے کہا
’’ابھی یہ تحریر مکمل نہیں ہوئی۔کیوں کہ اس پر ایک ایسے شخص کی گواہی ما مثبت ہونا ضروری ہے جومکہ شریف میں سب سے بڑھ کر امن پسند صلح جُو اور اپنے وعدے کا پابند ہے۔اس کی گواہی کے بغیر یہ معاہدہ بے وزن رہےگا۔‘‘
لوگ عبداللہ کی بات سن کر حیران رہ گئے کیونکہ شہر کے سب معزز لوگ تو وہاں موجود تھے۔انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ وہ کون آدمی ہے تو عبداللہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ زبیر کا بھتیجا۔عبدالمطلب کو پوتا اور عبداللہ کا لختِ جگر محمدﷺ‘‘
جناب محمد ﷺ کا اسم گرامی سن کر لوگ بے اختیار بول اٹھے کہ عبداللہ نے بالکل سچ کہا ہے۔پیارے بچوّ۔جانتے ہو اس وقت آپﷺ کی عمر کتنی تھی۔بس آپ ہی کی عمر کے برابر تھی یعنی صرف سولہ سال ۔
پیارے بچوّ۔دیکھاآپ نے اچھی خوبیاں کس طرح عمر کے ہر حصے میں قابل قدر ہوتی ہیں۔اگر آپ بھی اچھی خوبیاں رکھتے ہیں تو آپ کی قدروقیمت کو ہرجگہ محسوس کیا جائے گا ۔
غرض ہمارے آقا حضورﷺ کو وہاں پر بلایا اور جب آپﷺ نے اس معاہدہ پر اپنی گواہی مثبت کی تو آپﷺ کےچچا زبیر نے خوشی کے عالم میں کہا
’’میرا بھتیجا امن کا پیامبر اور صُلح کا مجسمہ ہے۔بنو ہاشم کو مرحوم عبداللہ کے اس فرزند پر فخر ہے۔محمدﷺواقعی بہت خوبیوں کے مالک ہیں۔
پیارے بچوّ ہمارے آقا حضورﷺ اکثر فرمایا کرتے تھے۔
’’ عبداللہ بن جدعان کے گھر حلف لینے کے لیے شریک ہوا تھا اور سرخ اونٹوں کے گلےّ کے عوض بھی اس شرکت کے اعزاز سے دست بردار ہونا نہیں چاہتا۔اور اگر اب زمانہ اسلام میں بھی مجھے کوئی اس کی دہائی دے کر پکارے تو میں اس کی مدد کو دوڑوں گا‘‘
اس طرح آپﷺ نے چھوٹی سی عمر میں بھی امن وامان قائم کرنے میں بھرپور حصہ لیااور لوگوں سے اپنی امن پسندی اور سچائی کا لوہا منوالیا۔