بچوں کے لیے پیارے نبیﷺ کی سیرت: پانچویں قسط
پیارے بچوّ۔ہمارے آقا حضورﷺابھی نوجوان تھے کہ ایک دفعہ مکہ شریف میں قحط پڑگیا۔اور لوگ بھوکے مرنے لگے۔بارش نہ ہونے کی وجہ سے فصلیں سوکھ گئیں جھاڑیاں اور گھاس بالکل خشک ہوکر رہ گئے ۔بکریاں بھوک کی تاب نہ لاکر بہت دبلی ہوگئیں۔اونٹ مریل سے ہوگئےتھے۔اس وقت لوگ بتوں کی پوچا کرتے تھے۔اس لیے انہوں نے بارش برسانے کے لیے اپنے بتوں سے خوب فریادیں کیں۔روئے پیٹے کئی جانور قربان کیے۔مگر ان سب کی یہ کوشش بےکار گئیں اور بارش بالکل نہ ہوئی۔پیارے بچوّ۔یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ بارش برسانے یا نہ برسانے سارا اختیار صرف اللہ پاک کو ہے کیونکہ وہی تو سب کا خالق اور قدرتوں کا مالک ہے۔اسے چھوڑ کر لوگ جب دوسروں کا پکاریں گے تو ان کی شنوائی کیسے ہوگی۔
آخر کار تنگ آکر اور بالکل مایوس ہوکر لوگوں کا ایک گروہ ہمارے آقا حضورﷺ کے بزرگ چچا جناب ابوطالب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے بارش کی دعا کرنے کی درخواست کی ان لوگو ں کا خیال تھا کہ سردار عبدالمطلب کے بعد ان کے یہ بیٹے (جناب ابوطالب) اب کعبہ شریف کے نگران ہیں۔اس لیے اس بلند مرتبے کی وجہ سے ان کی دعا قبول ہوگی۔اور بارش ہوجائےگی۔چنانچہ لوگوں کی فریاد سن کر جناب ابوطالب نے اپنے بھتیجے اور ہمارے آقاحضورﷺ کو اپنے ساتھ لیا۔لوگوں کو پیچھے آنے کے لیے کہااور خود کعبہ شریف کی طرف روانہ ہوگئے۔
یہ لوگ جب کعبہ شریف کے صحن میں جمع ہوئے تو گرمی کی شدت تھی۔زمین وآسمان تپ رہے تھے۔بادل کا کہیں دور دور تک نشان نہ تھا۔اس عالم میں جناب ابوطالب نے اپنے پیارے بھتیجے کو کعبہ شریف کی دیوار کےساتھ کھڑا کرکے کہا
’’ بیٹے ۔اللہ پاک سے بارش کی دعا کرو۔اللہ تمہاری دعاقبول کر ےگا۔‘‘
آپﷺ نے آسمان کی طرف دیکھا اپنی مبارک انگلی سے اشارہ کیا اور بارش کی دعا کی۔پیارے بچوّ۔آپ کو یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ ابھی ہمارے آقا حضورﷺ اپنے چچا کے ساتھ گھر تک نہیں پہنچے تھے کہ کالے کالے بادل امنڈ آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس قدر بارش ہوئی کہ جل تھل ہوگیا۔
اس بارش سے جنگل ہرے ہوگئے۔گھاس اگ آئی فصلیں لہلہانے لگیں پرندے چہچہا اٹھے اور ہر چیز نے خدا کا شکر اداکیا لوگوں کے دن پھر گئے۔قحط سالی دور ہوئی۔خوشحالی نے اپنے قدم جمالیے اور لوگوں میں مدتوں تک ہمارے آقا حضورﷺ کی اس دعا کے چرچے ہوتے رہے۔