جشنِ آمدِ مصطفیٰﷺ: حضور ﷺ کے والدین کریمین کے نکاح کا دل چسپ واقعہ
آگیا! آگیا! وہ مبارک لمحہ آگیا جب آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کے سرور حضور نبی کریم ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے۔۔۔آپ کی دنیا میں تشریف آوری سے قبل ہی دنیا میں چرچے تھے۔۔۔ایسا ہی ایک نہایت دل چسپ اور دل کو موہ لینا والا واقعہ پیش خدمت ہے۔
(نوٹ: محمد عبدالمالک ابنِ ہشام (المتوفی 218 ھ ) کی تحریر کردہ کتاب " سیرت النبی ﷺ از ابنِ ِ ہشام" کو سیرت کی معروف ترین اور قدیم ترین مستند کتاب شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی کتاب میں حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کے متعلق ایک خوبصورت واقعہ پیش کیا گیا ہے۔)
حضور ﷺ کا نور ،والد گرامی کی پیشانی پر
"اس عورت کا بیان جوحضرت عبداللہ بن عبدالمطلب سے نکاح کرنے آئی تھی "نبی کریم کے والد گرامی جناب حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب (خدا ان پر رحمتیں نازل فرمائے) کی دیت کے طور پر جب 100 اونٹوں کی قربانی پیش کر دی گئی تو اس کے بعد حضرت عبدالمطلب اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ راستے میں حضرت عبداللہ کو قبیلہ بنی اسد بن عبدالعزیٰ ابن قصیٰ بن کلاب کی ایک عورت نے روک لیا۔ یہ عورت ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ(جو توریت کے ایک اعلیٰ پائے کے عالم تھے) کی بہن تھی اور وہ کعبۃ اللہ کے پاس ہی کھڑی تھی۔ اس عورت نے جب حضرت عبداللہ کے چہرے کو دیکھا تو ان سے کہا: اے عبداللہ! کہاں جاتے ہو؟ انھوں نے کہا کہ اپنے والد کے ساتھ جا رہا ہوں۔ اس عورت نے کہا کہ میں تمہیں اتنے ہی اونٹ دوں گی جتنے تمہارے فدیے میں ذبح کئے گئے ہیں۔ اس کے بدلے تم ابھی مجھ سے نکاح کر لو۔ انھوں نے کہا کہ میں اپنے والد کے ساتھ ہوں۔ وہ جس راستے جا رہے ہیں، میں نہ اس راستے کے خلاف دوسرے راستے جا سکتا ہوں اور نہ انھیں چھوڑ سکتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلے گئے۔
حضور ﷺ کے والدین کریمین کا نکاح
حضرت عبدالمطلب اپنے بیٹے کو لے کر وہب بن عبد مناف بن زہرہ کے پاس لے گئے۔ وہب ان دنوں قبیلہ بنی زہرہ میں عزت و نسب دونوں لحاظ سے سردار تھے۔ انھوں نے اپنی بیٹی حضرت آمنہ بنت وہب کو حضرت عبداللہ کے نکاح میں دے دیا ۔ حضرت آمنہ ان دنوں قریش کی عورتوں میں نسب اور رتبے کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر تھیں۔بیان کیا جاتا ہے کہ جب وہب نے حضرت عبداللہ کی زوجیت میں بی بی حضرت آمنہ کو دے دیا تو حضرت عبداللہ نے وہیں ان کے ساتھ رات گزاری اور حضرت آمنہ نے رسول اللہ ﷺ کے نور کو اپنے بطن میں سما لیا۔
صبح حضرت عبداللہ وہاں سے نکل کر اس عورت کے پاس آئے جس نے آپ کے آگے اپنی ذات کو پیش کیا تھا۔ آپ نے اس سے کہا کہ وہ اونٹ جو تونے کل پیش کئے تھے، کیا آج بھی دو گی؟ اس عورت نے جواب دیا کہ نہیں۔ آج وہ نور تمہارے پاس نہیں ہے جو کل تھا۔ اس لیے اب مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں۔ وہ عورت اپنے بھائی ورقہ بن نوفل سے ( جو تورات کا عالم تھا) سنا کرتی تھی کہ اس قوم میں ایک نبی ہونے والا ہے۔ اس عورت نے کہا کہ کل جب آپ میرے پاس سے گزرے تو آپ کی آنکھوں کے درمیان ایک چمک تھی، اس لیے میں نے آپ کو نکاح کی دعوت دی تھی۔ لیکن آپ میرے پاس آنے کی بجائے (حضرت) آمنہ کے پاس چلے گئے اور اس چمک کو انھوں نے لے لیا۔ وہ عورت بعد میں بیان کیا کرتی تھی کہ جب حضرت عبداللہ ان کے پاس سے گزرے تو ان کی آنکھوں کے درمیان ایک طرح کی سفیدی تھی ، جس طرح گھوڑے کی پیشانی میں سفیدی ہوتی ہے۔ میں نے ان کو بلایا تاکہ وہ سفیدی مجھ میں آ جائے لیکن انھوں نے میرے پاس آنے سے انکار کیا اور آمنہ بنت وہب کے پاس چلے گئے اور ان سے ہم صحبت ہوئے تو رسول اللہ ﷺ ان کے بطن تشریف لے آئے۔
" یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے"