سیرت امام حسین رضی اللہ عنہ ہمارے لیے کیسے مشعلِ راہ بن سکتی ہے؟
حضرت امام حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کی حیات طیبہ میں ہمارے لیے کیا سبق ہیں؟ سچا حسینی بننے کا کیا نسخہ ہے؟
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے حضرت حسین ابن علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حیاتِ طیبہ اسلام کے سچے وفادار، خدا اور اس کے رسول کے پاکباز سپاہی اور ظلم و ستم کے خلاف ایک توانا آواز ہے۔
کربلا (عراق) میں اپنے ایک سو سے زائد عزیز اقارب کے ہمراہ تیس ہزار کے لشکر کے سامنے اسلام کی خاطر جواں مردی سے سامنا کیا۔ وہ امت مسلمہ اور اسلام کی لازوال تعلیمات کے تحفظ کے لیے اپنی جان دینے کے لیے آمادہ نظرآئے۔ ان کی اللہ تعالیٰ ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین اسلام کے لیے خلوص اور وفاداری ہی تھی جس کی وجہ سے ان کے دشمن تاریخ میں ایک سمندر کا ایک قطرہ ثابت ہوئے اور امام عالی مقام حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کا آج بھی دنیا میں ڈنکا بج رہا ہے۔
ان کی زندگی میں محرم الحرام کے دس دن مشقت بھرے روزوشب، صبر ، توکل علی اللہ اور ایمان باللہ کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ ان کی ساری زندگی اسلام کے دامن میں گزری۔ ہم یہاں ان کی حیات مبارکہ سے حاصل ہونے والے چند اسباق کا تذکرہ کررہے ہیں جو ہر مسلمان کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوں گے۔
عجز و انکساری: بڑے لوگوں کا ظرف بھی بڑا
لوگ کسی کی امارت، بڑے عہدے اور سیاسی قد کاٹھ کی وجہ سے خود کو دوسروں سے اعلیٰ و ارفع جاننے لگتے ہیں۔۔۔لیکن قربان جائیے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسین ابن علی رضی اللہ عنہ پر،ان کی نسبت اور ان کی شان پر۔۔۔وہ خاتم النبین اور انبیا کے سردار محمد رسول اللہ علیہ الصلواۃ والسلام کے نواسے، امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم اور خاتونِ جنت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے صاحب زادے تھے۔ لیکن ان کی شخصیت میں عجز و انکساری نمایاں تھی۔ ان کی سیرت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم خانوادہ رسول علیہ الصلواۃ والسلام کے غلاموں کے غلام ہیں۔۔۔ہمیں بھلا تکبر و نخوت جیسے رذائل کیسے زیباں دیتے ہیں۔ ہمیں بھی عجز و انکساری کو اپنانا چاہیے۔
صبر و تحمل: زندگی کا گُر
سورہ العصر میں کامیاب انسان کی بیان کردہ چار خوبیوں میں ایک "دوسروں کو صبر کی تلقین کرنا" ہے۔دوسروں کو صبر کی تلقین وہی کرسکتا ہے جو خود صبر کا مجسم نمونہ ہو۔ حضرت امام حسین رضہ اللہ عنہ کی زندگی صبر و تحمل کی بہترین مثال ہے۔جب کربلا کے میدان میں ظالموں نے دریائے عرفات کا پانی ان پر بند کردیا، شیر خوار صاحب زادہ نے آپ کی بانہوں میں آخری سانس لی،قریبی ساتھی آنکھوں کے سامنے خدا کی راہ میں قربان ہوئے لیکن انھوں نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔انھوں نے اس مشکل حالات میں بھی خداوند تعالیٰ کو یاد رکھا اور حواس پر ضبط رکھا۔
زندگی آزمائش اور چیلنجز کا نام ہے۔لیکن ہم مشکل حالات میں صبر کا دامن چھوڑ بیٹھتے ہیں، خدا سے گلے شکوے کرنے لگتے ہیں اور حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ہمارے لیے امام عالی مقام کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔
عزمِ مصمم: ہمت و حوصلہ زندگی کا جوہر
زندگی اپنے محاسن پر بسر کی جاتی ہے۔ ہمت و حوصلے کے ساتھ مضبوط فیصلہ سازی کی قوت کامیاب زندگی کی ضامن ہے۔زندگی میں مسائل اور چیلنجز آتے ہیں اور ہزار رکاوٹیں آتی ہیں۔ لیکن عزم مصمم کے ساتھ اپنے مشن پر چلتے رہنا ہی زندگی کا اصل خمیر ہے۔ حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کی سیرت میں ہمت و حوصلہ اور عزم مصمم کی خصوصیات نمایاں نظر آتی ہیں۔یزید کے ظلم و ستم، ان کے خلاف سازشیں اور مدینہ سے کربلا تک سفر کی صعوبتیں بھی ان کو دینِ اسلام کی سربلندی اور اپنے موقف سے ذرا برابر بھی ہٹا نہ سکیں۔حسنییت کا پیغام یہی ہے کہ اپنے اصولوں اور نصب العین سے کبھی پیچھے نہ ہٹیں اور مشکلات و مصائب میں بھی اپنے نظریے سے مضبوطی سے جڑے رہیں۔
درگزر: معاف کردینا بڑے پن کی علامت
بڑے لوگوں کا ظرف بھی بڑا ہوتا ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے بدترین دشمنوں کو بھی معاف کردیا۔معاف کردینا بزدلی یا کم ہمتی کی علامت نہیں ہے بلکہ اعلیٰ ظرفی اور اعلٰی اخلاق کا اظہار ہے۔ اصل معاف کرنا وہ ہے کہ قوت، اختیار اور بدلہ لینے کا موقع بھی ہو لیکن پھر بھی درگزر سے کام لیا جائے۔جب میدان کربلا میں دورانِ جنگ جنابِ حُر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ امام عالی مقام کی بارگاہ میں معافی کا خواستگار ہوا تو آپ نے اسے معاف کردیا۔ذرا سوچیے کہ ہمیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مصائب کا صرف ایک فیصد حصے کے برابر مشکل حالات کا سامنا ہو تو آیا ہم معافی کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ہم دعویٰ تو حسینی ہونے کا کرتے ہیں لیکن معمولی جھگڑوں پر ایک دوسرے کے گلے کاٹ دیتے ہیں۔
حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول ہے: "(مصائب و مشکلات اور تکلیف کی) ابتدا میں ہی معاف کردینا (جواں مردی اور) زیادہ (قابل تحسین اور) مضبوط (عمل) ہے۔" حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ثابت کردیا کہ وہ دنیا میں طاقت ور ترین اور حوصلہ مند انسان تھے۔
حاصل کلام
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت ہمارے لیے اعلیٰ نمونہ ہے۔ سماج میں ظلم و ستم اور دین اسلام کے خلاف ڈٹ جانا، زندگی کے معاملات میں حوصلہ مندی اور درگزر سے کام لینا اور امارت و عہدے کے باوجود عجز و انکساری کا مظاہرہ کرنا حسینیت ہے۔