سزائے موت کے وقت کا پس منظر
سزائے موت فجر کے بعد اور طلوعِ آفتاب سے پہلے ہی کیوں دی جاتی ہے؟
راتیں سیاہ ہوتی ہیں، اور اسی طرح انسانوں کے برے اعمال بھی سیاہ ہی تصور کیے جاتے ہیں۔ شکاری انسانوں کے دور سے رات کو ڈر، خوف اور جرائم کا مرکز مانا جاتا آ رہا ہے۔ جبکہ وہیں دِن کی روشنی اس رات کی تاریکیوں کو ختم کر کے سکون لے آتی ہے۔
سزائے موت فجر اور طلوعِ آفتاب کے درمیان کیوں دی جاتی ہے یہ سوال کافی مزے کا لگا۔ کیا یہ کوئی رواج ہے یا کوئی بغیر منطق کے بات، جس کی ہم بغیر تصدیق کیے، اندھا دھند پیروی کرتے چلےآ رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ہمیں کچھ معاشرتی پہلو ملے؛
چونکہ طلوعِ آفتاب سے پہلے تاریکی چھٹ رہی ہوتی ہے اور تمام انسانی معاشروں میں تاریکی کو ظلم سے تشبیہ دی جاتی ہے، ایسے میں جب تاریکی چھٹ رہی ہوتی ہے تو مجرم کو پھانسی پہ لٹکا دیا جاتا ہے تاکہ اُس کے جرم کی تاریکی صبح کے اجالے سے ختم ہو جائے۔
اسی طرح دن جب چڑھ جاتا ہے تو لوگ اپنا کارِ زندگی چلانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ایک شخص کو دوپہر یا دن کے کسی دوسرے حصے میں سزا دینا معاشرے کے باقی لوگوں کو ذہنی کُوفت میں ڈالنے کے مُترادف ہو گا جس کے نتیجے میں امورِ زندگی باقی کے دن کے لئے ٹھپ ہو سکتے ہیں۔ لیکن چونکہ طلوعِ آفتاب سے پہلے بہت کم لوگ اس بات کے شاہد ہوتے ہیں اس لئے بہت بڑی تعداد ذہنی کوفت میں مبتلا ہونے سے بچ جاتی ہے۔
ایک اور پہلو یہ ملا کہ صبح کے اس حصے میں انسان کے گلے کے ٹشو باقی دن کی نسبت ڈھیلے ہوتے ہیں اس لئے درد کی شدت کم اور موت آسانی سے آتی ہے۔
اسی طرح انفرادی نفسیات کی بات کریں تو مجرم دن کے آغاز میں جب اُٹھتا ہے تو اس کی سوچیں ویسے تیز نہیں چل رہی ہوتیں جیسے دن کے باقی حصوں میں چلتی ہیں اور چونکہ مجرم کو جسمانی سزا دینا مقصود ہے، نا کہ ذہنی کوفت میں مبتلا کرنا ، اس لئے سو کر اٹھنے کے گھنٹے بھر بعد اُس کو لٹکا دیا جاتا ہے اور یوں وہ ذہنی اذیت میں اتنا مبتلا نہیں ہوتا جتنا وہ صبح اٹھ کر دن کے کسی اور حصے میں سزا ملنے کے انتظار میں ذہنی اذیت میں مُبتلا ہوتا ہے۔
یہ کچھ معاشرتی اور نفسیاتی وجوہات ہیں جن کے مطابق طلوعِ آفتاب سے پہلے مجرم کو سزائے موت دی جاتی ہے۔