سزا

بھول جانا انہیں آسان ہے اے دل
تو نے پہلے بھی کئی بار قسم کھائی ہے
درد جب حد سے بڑھا ضبط کا یارا نہ رہا
ان کی ایک ایک ادا یاد مجھے آئی ہے


وہ تبسم میں نہاں طنز کے میٹھے نشتر
وہ تکلم میں تغافل کو چھپانے کی ادا
رک کے ہر لمحہ نئی طرح سے آغاز ستم
جیسے کچھ کھو کے کسی چیز کو پانے کی ادا
میری خاموشی پہ بے باک نگاہی ان کی
جذبۂ شوق کو کچھ اور بڑھانے کی ادا
وہ مسلسل مری باتوں پہ توجہ کی نظر
رخ پہ مچلی ہوئی زلفوں کو ہٹانے کی ادا
میرے اشعار کو سنتے ہی وہ آنکھوں میں غرور
مجھ کو ہر طرح سے دیوانہ بنانے کی ادا
بے خودی دیکھ کے میری وہی بیگانہ روی
پاس آ آ کے بہت دور وہ جانے کی ادا
رخصتی لمحوں میں ہونٹوں پہ دعاؤں کا گماں
در پہ رک کر مری خاطر سے وہ جانے کی ادا


آج رہ رہ کے تڑپتا ہوں نئی بات ہے کیا
دل نے کیوں ترک محبت کی قسم کھائی ہے
وہ ستم لاکھ کریں ان کا تو شیوہ ہے یہی
عشق کی ترک محبت میں بھی رسوائی ہے
اب تو جلتے ہوئے جینا ہی پڑے گا اے دل
''تو نے خود اپنے کئے کی یہ سزا پائی ہے''