سیاروں کی محفل
زمین
مری نظروں میں اے مریخ تیرا درجہ اعلیٰ ہے
بلندی پر تو رہتا ہے تری قسمت بھی بالا ہے
مریخ
بلندی اور پستی کا کبھی دھوکا نہیں کھائیں
زمیں اوپر دکھائی دے اگر مریخ پر آئیں
زمین
تجھے مانا ہے دیوتا جنگ کا نادان لوگوں نے
تباہی کا دیا الزام تجھ کو روم والوں نے
تجھے بھارت کے دانشور سدا منحوس کہتے ہیں
تجھے کہتے رہے منگل کبھی جلاد کہتے ہیں
بتا اے سرخ سیارے ترے حالات کیسے ہیں
ترے تالاب کیسے ہیں ترے باغات کیسے ہیں
ترے پاکیزہ دامن میں مناظر کیسے کیسے ہیں
تری آغوش کے اندر نوادر کیسے کیسے ہیں
مریخ
نہیں مریخ پر جھیلیں نہ چشمہ ہی ابلتا ہے
سمندر ہے نہ دریا ہے نہ کوئی موتی ملتا ہے
نہ بلبل کے ترانے ہیں نہ کوئی گل مہکتا ہے
پرندہ بھی نہیں کوئی خوشی سے جو چہکتا ہے
یہاں جگنو نہیں کوئی جو ظلمت میں چمکتا ہے
نہ ہیرا اور نیلم ہے ہمیشہ جو دمکتا ہے
ہوا کا کوئی جھونکا ہے نہ سبزہ لہلہاتا ہے
نہ بطخوں کی قطاریں ہیں نہ طائر چہچہاتا ہے
نسیم صبح چلتی ہے نہ بادل اور پانی ہے
نہ گلشن ہے یہاں کوئی نہ موجوں کی روانی ہے
مرے قطبین کو دیکھو وہاں یخ بستہ پانی ہے
یہی پانی یہاں پر زندگانی کی نشانی ہے
زمیں کے لوگ کہتے ہیں کہ نہروں کی روانی ہے
حقیقت میں نہیں ایسا فقط جھوٹی کہانی ہے
یہاں صورت نظر آتی ہے آبشاروں کی
نظر آتی ہے کثرت ہر طرف سنگلاخ غاروں کی
یہاں ہے گہرا سناٹا خموشی کی حکومت ہے
فضا بھی خشک ہے میری نہیں کوئی رطوبت ہے
زمین
شریک بزم ہو مسٹر عطارد تم بھی کچھ بولو
زباں پر لگ گیا تالا تو اس محفل میں تم کھولو
عطارد
پڑوسی ہوں میں سورج کا نمونہ ہوں جہنم کا
یہاں شدت کی گرمی ہے تو ممکن ہی نہیں جینا
زمین
مرے نزدیک ہو زہرہ بہت رخشندہ سیارہ
یہاں سب لوگ کہتے ہیں کہ تم ہو صبح کا تارہ
زہرہ
منور میرا چہرہ ہے میں گرمی کا مارا ہوں
زمیں ہے مجھ کو پیاری میں زمیں والوں کا پیارا ہوں
زمین
عظیم الشان جثہ ہے ہماری منتری تم ہو
جسے زیبا ہے سرداری وہ بے شک مشتری تم ہو
مشتری
بڑا ہے جسم میرا اور زینت کچھ نہیں مجھ میں
بڑا سا گول گپا ہوں صباحت کچھ نہیں مجھ میں
زمین
ہماری انجمن میں اے زحل تم ہی نرالے ہو
تمہارے گرد حلقہ ہے انوکھی شکل والے ہو
زحل
گلے میں طوق ہے میرے مری صورت نرالی ہے
اگر نزدیک سے دیکھیں تو یہ شے تیز آندھی ہے
نظر آتا ہے جو حلقہ وہ ہیں چھوٹے بڑے پتھر
لگاتے ہیں بڑی تعداد میں چاروں طرف چکر
زمین
مرے دو بھائی ہیں آگے تمہارا حال کیسا ہے
وہاں ہے کیفیت کیسی وہاں ماحول کیسا ہے
یورینس
یہاں شدت کی سردی ہے لہٰذا میں بھی ٹھنڈا ہوں
ذرا میری طرف دیکھو بڑا سا گولا گنڈا ہوں
نیپچون
مجھے نیپچون کہتے ہیں اسی کنبے کا ہوں ممبر
بہت دوری ہے سورج سے لگاتا ہوں بڑا چکر
مریخ
میں پہنچا اس نتیجے پر زمیں پر خوش نمائی ہے
خدا نے پھول اور پودوں سے یہ دنیا سجائی ہے
زمیں پر زندگی ہے حسن ہے اور دل ربائی ہے
مجھے الفت زمیں سے ہے وہی دل میں سمائی ہے
وہاں آباد ہیں انساں وہاں شان خدائی ہے
ہماری کہکشاں میں ایسی قسمت کس نے پائی ہے