سوال کا جواب تھا جواب کے سوال میں
سوال کا جواب تھا جواب کے سوال میں
گرفت شور سے چھٹے تو خامشی کے جال میں
برا ہو آئینے ترا میں کون ہوں نہ کھل سکا
مجھی کو پیش کر دیا گیا مری مثال میں
بقا طلب تھی زندگی شفا طلب تھا زخم دل
فنا مگر لکھی گئی ہے باب اندمال میں
کہیں ثبات ہے نہیں یہ کائنات ہے نہیں
مگر امید دید میں تصور جمال میں
قدیم سے ہٹے تو ہم جدید میں الجھ گئے
نکل کے گردش فلک سے موسموں کے جال میں