سو ظلمتیں ہے عشق پریشاں لئے ہوئے

سو ظلمتیں ہے عشق پریشاں لئے ہوئے
آ جاؤ مشعل رخ تاباں لئے ہوئے


ہر موج بے خراش تھی دریائے حسن کی
آنا پڑا تلاطم ارماں لئے ہوئے


دست جنوں کو چھیڑ نہ غیرت دہ بہار
دامن سے جا ملے نہ گریباں لئے ہوئے


بڑھ جائے اور عرصۂ محشر ضرورتاً
آیا ہوں ساتھ کثرت عصیاں لئے ہوئے


اک سرمدی حیات گلے مل کے دی گئی
تھی تیغ ناز چشمۂ حیواں لئے ہوئے


دیتے رہے وہ حسن کو درس جمال طور
بیٹھا رہا میں دیدۂ حیراں لئے ہوئے


آتا ہے کون حشر میں یہ جھومتا ہوا
سجدوں کے ساتھ کوچۂ جاناں لئے ہوئے


تو اپنے تیر ناز کا مجھ سے نہ ذکر کر
دل اڑ نہ جائے عالم امکاں لئے ہوئے


چھایا ہے ابرؔ مہر قیامت پہ بن کے ابر
وہ اشک تھا جو دیدۂ گریاں لئے ہوئے