سرشار ہوں ساقی کی آنکھوں کے تصور سے

سرشار ہوں ساقی کی آنکھوں کے تصور سے
ہے کوئی غرض مجھ کو بادہ سے نہ ساغر سے


اس دور میں میخانے کا نظم نرالا ہے
پی کر کوئی بہکے ہم اک جرعہ کو بھی ترسے


کتنے ہیں جو اک قطرہ سے پیاس بجھاتے ہیں
سیراب نہیں ہوتے کچھ لوگ سمندر سے


ہشیار بہت رہنا ہے آج کے راہی کو
جتنا نہیں رہزن سے ڈر اتنا ہے رہبر سے


جرأت کے دھنی جو ہیں مے خانہ ہی ان کا ہے
جرأت نہ ہو جس میں وہ اک جام کو بھی ترسے


اس دل کو سمجھنا کچھ آسان نہیں پیارے
یہ سخت ہے پتھر سے نازک ہے گل تر سے


سوچا تھا نہ پیمانہ اب منہ سے لگاؤں گا
کیا خیر ہو توبہ کی جب گھر کے گھٹا برسے


ان سے کوئی کہہ دے وہ خود اپنا مقدر ہیں
جو لوگ گلہ کرتے ہیں اپنے مقدر سے