سرمایۂ جاں
یہ سب نے دیکھا
کہ ساز گل سے نکل کے خوشبو کا ایک جھونکا
ہزار نغمے سنا گیا ہے
مگر کسی کو نظر نہ آیا کہ اس کے پردے میں گل نے اپنا
تمام جوہر لٹا دیا ہے
یہ میری سوچوں کی سبز خوشبو
یہ میری نظمیں یہ میرا جوہر
یہ میرے لفظوں کے شاہزادے
یہ میری آواز کے مسافر
نکل کے ہونٹوں کی وادیوں سے
خموشیوں کے مہیب جنگل میں آہٹوں کے فریب کھاتے
نشاط منزل کی جستجو میں
اداس رستوں پہ چل رہے ہیں
سفر کے دوزخ میں جل رہے ہیں