سر میں سودا کوئی باقی نہ جنوں ہے یوں ہے
سر میں سودا کوئی باقی نہ جنوں ہے یوں ہے
اب تو آرام ہے راحت ہیں سکوں ہے یوں ہے
اس سے ملنے کے بہانے تو بہت ہیں لیکن
اس سے ملنا مرے پندار کا خوں ہے یوں ہے
ناصحا تجھ کو خبر سب ہے محبت کیا ہے
ورنہ یوں ہی نہیں سمجھا تھا کہ یوں ہے یوں ہے
ہم ہیں محتاج ہر اک کام کے کرنے میں یہاں
رب کا ہر کام فقط کن فیکوں ہے یوں ہے
کتنی رغبت تھی تری یاد سے پہلے مجھ کو
اور تری یاد بھی اب کار زبوں ہے یوں ہے
پھر وہی کل کی طرح دیر سے گھر آؤ گے
پھر وہی عذر بتاؤگے کہ یوں ہے یوں ہے
پہلے کچھ بات بھی ہو جاتی تھی اس سے قادرؔ
اور اب اس سے مری ہاں ہے نہ ہوں ہے یوں ہے