سر طور

دل کو بے تاب رکھتی ہے اک آرزو
کم ہے یہ وسعت عالم رنگ و بو
لے چلی ہے کدھر پھر نئی جستجو
تا بہ حد نظر اڑ کے جاتے ہیں ہم
وہ جو حائل تھے راہوں میں شمس و قمر
ہم سفر ان کو اپنا بناتے ہیں ہم


ہے زمیں پردۂ لالہ و نسترن
آسماں پردۂ کہکشاں ہے ابھی
راز فطرت ہوا لاکھ ہم پر عیاں
راز فطرت نہاں کا نہاں ہے ابھی
جس کی صدیوں ادھر ہم نے کی ابتدا
ناتمام اپنی وہ داستاں ہے ابھی
منزلیں اڑ گئیں بن کے گرد سفر
رہ گزاروں ہی میں کارواں ہے ابھی
پی کے ناکامیوں کی شراب کہن
اپنا ذوق تجسس جواں ہے ابھی


ہاتھ کاٹے گئے جرأت شوق پر
خوں چکاں ہو کے وہ گلفشاں ہو گئے
حیرتوں نے لگائی جو مہر سکوت
لب خموشی میں جادو بیاں ہو گئے
راستے میں جو کہسار آئے تو ہم
ایسے تڑپے کہ سیل رواں ہو گئے
ہیں ازل سے زمیں کے کرے پر امیر
ہو کے محدود ہم بیکراں ہو گئے
ذوق پرواز بھی دل کی اک جست ہے
خاک سے زینت آسماں ہو گئے


عقل چالاک نے دی ہے آ کر خبر
اک شبستاں ہے ایوان مہتاب میں
منتظر ہیں نگاران آتش بدن
جگمگاتی فضاؤں کی محراب میں
کتنے دل کش حسیں خواب بے دار ہیں
ماہ و مریخ کی چشم بے خواب میں
کھینچ پھر زلف معشوقۂ نیلگوں
لے لے شعلے کو پھر دست بیتاب میں
مژدہ ہو مہ جبینان افلاک کو
بزم گیتی کا صاحب نظر آ گیا
تہنیت حسن کو بے نقابی کی دو
دیدہ ور آ گیا پردہ دار آ گیا
آسماں سے گرا تھا جو کل ٹوٹ کر
وہ ستارہ بدوش قمر آ گیا
لے کے پیمانۂ درد دل ہاتھ میں
مل کے چہرے پہ خون جگر آ گیا
بزم سیارگان فلک سیر میں
اک ہنر مند سیارہ گر آ گیا


شوق کی حد مگر چاند تک تو نہیں
ہے ابھی رفعت آسماں اور بھی
ہے ثریا کے پیچھے ثریا رواں
کہکشاں سے پرے کہکشاں اور بھی
جھانکتی ہیں فضاؤں کے پیچاک سے
رنگ اور نور کی وادیاں اور بھی
اور بھی منزلیں، اور بھی مشکلیں
ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی


آج دست جنوں پر ہے شمع خرد
دو جہاں جس کے شعلے سے معمور ہیں
لے کے آئیں پیام طلوع سحر
جتنے سورج خلاؤں میں مستور ہیں
کہہ دو برق تجلی سے ہو جلوہ گر
آج موسیٰ نہیں ہم سر طور ہیں