سر دیں گے علم سرنگوں ہم ہونے نہ دیں گے
سر دیں گے علم سرنگوں ہم ہونے نہ دیں گے
مٹ جائیں گے توہین حرم ہونے نہ دیں گے
وہ دن گئے جھک جاتے تھے ہم آپ کے آگے
اب تو سر تسلیم بھی خم ہونے نہ دیں گے
یہ حسرت دیدار نکل جائے نہ جب تک
اے ذوق نظارہ تجھے کم ہونے نہ دیں گے
ہم نظم گلستاں کو بدل دیں گے ستم گر
پھولوں پہ ہواؤں کے ستم ہونے نہ دیں گے
وہ حسن پہ مغرور ہیں ہوتے رہیں لیکن
ہم عشق کو محتاج کرم ہونے نہ دیں گے
وہ بھی نظر آتے ہیں ستم گاروں میں مخفیؔ
جو کہتے تھے ہم ظلم و ستم ہونے نہ دیں گے