سر بسر پیکر اظہار میں لاتا ہے مجھے
سر بسر پیکر اظہار میں لاتا ہے مجھے
اور پھر خود ہی تہ خاک چھپاتا ہے مجھے
کب سے سنتا ہوں وہی ایک صدائے خاموش
کوئی تو ہے جو بلندی سے بلاتا ہے مجھے
رات آنکھوں میں مری گرد سیہ ڈال کے وہ
فرش بے خوابئ وحشت پہ سلاتا ہے مجھے
گم شدہ میں ہوں تو ہر سمت بھی گم ہے مجھ میں
دیکھتا ہوں وہ کدھر ڈھونڈنے جاتا ہے مجھے
دیدنی ہے یہ توجہ بھی بہ انداز ستم
عمر بھر شیشۂ خالی سے پلاتا ہے مجھے
ہمہ اندیشۂ گرداب بہ پہلوئے نشاط
موج در موج ہی ساحل نظر آتا ہے مجھے