سقوط ڈھاکہ پر نظم: میں کیا بتاؤں کسے سناؤں
مَیں کیا بتاؤں کسے سُناؤں
عجب انوکھا سا حادثہ ہے
کھڑے کھڑے اپنے ہی وطن میں
مِرا وطن مُجھ سے کھو گیا ہے
مِرا یہ عالم کہ جیسے کوئی
ملول راہی لُٹا کھڑا ہے
ہے میرا غم کس قدر انوکھا
کہوں تو پھر بھی نہ پا سکو گے
مَیں اپنے کھوئے ہوئے وطن کو
کہاں کہاں جا کے ڈھونڈ آیا
مَیں رات دِن قریہ قریہ گھوما
مگر کہیں بھی پتہ نہ پایا
تھکا تحیر زدہ کھڑا ہوں
گُزرنے والوں کو دیکھتا ہوں
کسی نِگَہ میں چمک نہیں ہے
گُلوں میں کوئی مہک نہیں ہے
یہ آدمی ہیں اور آدمیت کی
اِن میں کوئی جھلک نہیں ہے
دِلوں میں کینہ بھرا ہوا ہے
جبیں پہ نفرت لکھی ہوئی ہے
افُق کے پھیلے ہوئے ورق پر
سیاہ قسمت لکھی ہوئی ہے
جگہ جگہ خوں کی روشنائی سے
اپنی ذلت لکھی ہوئی ہے
اِدھر درندے اُدھر درندے
یہاں شکاری ،وہاں شکاری
کہیں پہ رسمِ قمار بازی
کہیں پہ ہے شغلِ بادہ خواری
کبھی سیاست کی محفلوں میں
دکھاتے ہیں شعبدے مداری
یہ آنکھیں دیکھی ہوئی ہیں میری
مگر نگاہیں بدل گئی ہیں
یہاں پہ انسانیت ہے رُسوا
نہیں یہ میرا وطن نہیں ہے
یہاں سیاسی شعور اندھا
نہیں یہ میرا وطن نہیں ہے
یہاں شرافت کو پِستے دیکھا
نہیں یہ میرا وطن نہیں ہے
میرا وطن مُجھ سے چِھن گیا ہے
مِرا وطن مُجھ سے کھو گیا ہے !!