سنسار کی ہر شے کا اتنا ہی فسانہ ہے
سنسار کی ہر شے کا اتنا ہی فسانہ ہے
اک دھند سے آنا ہے اک دھند میں جانا ہے
یہ راہ کہاں سے ہے یہ راہ کہاں تک ہے
یہ راز کوئی راہی سمجھا ہے نہ جانا ہے
اک پل کی پلک پر ہے ٹھہری ہوئی یہ دنیا
اک پل کے جھپکنے تک ہر کھیل سہانا ہے
کیا جانے کوئی کس پر کس موڑ پر کیا بیتے
اس راہ میں اے راہی ہر موڑ بہانا ہے
ہم لوگ کھلونا ہیں اک ایسے کھلاڑی کا
جس کو ابھی صدیوں تک یہ کھیل رچانا ہے