سناٹا مخدومؔ محی الدین 07 ستمبر 2020 شیئر کریں کوئی دھڑکن نہ کوئی چاپ نہ سنچل نہ کوئی موج نہ ہلچل نہ کسی سانس کی گرمی نہ بدن ایسے سناٹے میں اک آدھ تو پتا کھڑکے کوئی پگھلا ہوا موتی کوئی آنسو کوئی دل کچھ بھی نہیں کتنی سنسان ہے یہ راہ گزر کوئی رخسار تو چمکے کوئی بجلی تو گرے