سناٹا

کوئی دھڑکن
نہ کوئی چاپ
نہ سنچل
نہ کوئی موج
نہ ہلچل
نہ کسی سانس کی گرمی
نہ بدن


ایسے سناٹے میں اک آدھ تو پتا کھڑکے
کوئی پگھلا ہوا موتی
کوئی آنسو
کوئی دل
کچھ بھی نہیں
کتنی سنسان ہے یہ راہ گزر
کوئی رخسار تو چمکے کوئی بجلی تو گرے