سنگ تھے پگھلے تو پانی ہو گئے
سنگ تھے پگھلے تو پانی ہو گئے
ہم وہ چہرے جو کہانی ہو گئے
کھیل ہے اب ہر طرف تصویر کا
لفظ سارے بے معانی ہو گئے
بات کرنی تھی ہمیں جس سے بہت
ہم اسی کی بے زبانی ہو گئے
چند قطرے رہ گئے تھے آنکھ میں
وہ بھی دریا کی روانی ہو گئے
سبز موسم آ گیا تھا روم میں
آئنے بھی دھانی دھانی ہو گئے
آسماں پر رہ کے بھی تم خاک ہو
ہم زمیں پر آسمانی ہو گئے
چھاؤں میں گوتم کی کیا بیٹھے شکیلؔ
تھوڑے تھوڑے ہم بھی گیانی ہو گئے