سنگ کسی کے چلتے جائیں دھیان کسی کا رکھیں

سنگ کسی کے چلتے جائیں دھیان کسی کا رکھیں
ہم وہ مسافر ساتھ اپنے سامان کسی کا رکھیں


رنگ برنگے منظر دل میں آنکھیں خالی خالی
ہم آواز کسی کو دیں امکان کسی کا رکھیں


اک جیسے ہیں دکھ سکھ سب کے اک جیسی امیدیں
ایک کہانی سب کی کیا عنوان کسی کا رکھیں


دن بھر تو ہم پڑھتے پھریں اپنی غزلیں نظمیں
رات سرہانے اپنے ہم دیوان کسی کا رکھیں


اکھڑی اکھڑی الٹی سیدھی شاذؔ ہیں اس کی باتیں
آؤ کچھ دن اس دل کو مہمان کسی کا رکھیں