سنگ جاں

آب خفتہ میں
اک سنگ پھینکا تو ہے
دائرے
سطح ساکت پہ ابھرے ہیں
پھینکیں گے
مٹ جائیں گے


اور وہ سنگ جاں
اپنی یہ داستاں
زیر بار جمود گراں
ایک سنگ ملامت کی مانند
دہرائے گا
وہ جس کا انتظار تھا


وہ جس کا انتظار تھا
شفق کو
بادلوں کو
رہ گزر کو آبشار کو
خزاں کی پتیوں کو
چاندنی کو
دھوپ کو بہار کو
وہ جس کی آرزو تھی
ساعتوں کو
خامشی کو
ذہن کو خیال کو
تصور محال کو
کھنکتی پیالیوں کو
کرسیوں کو
جام کو کو نا ناتمام کو
دوپہر کو شام کو


وہ جس کی آہٹیں سماعتوں کے کنج میں نہاں تھیں
جس کا عکس
جلوہ ریز تھا
بصارتوں کی جھیل میں
وہ کیا فقط صفا کا سرمگیں خرام تھا
کہ شاخ گل کا سایۂ خفیف تھا
کہ موج آب پر کرن کا ارتعاش تھا
جو ایک پل میں سامنے سے یوں گزر گیا
کہ وہ سبھی جو منتظر تھے
آنکھ ملتے رہ گئے


مگر وہ اس طرح گزر گیا
کہ یک بیک وہ انتظار کی بساط ہی الٹ گئی
وہ کھیل ختم ہو گیا
اور اس کے بعد
آسمان سے زمیں
زمیں سے آسماں تک
خلا خلا خلا خلا