سنگ بنیاد

کتنی بے نور تھی حیات میری
راہ کا تھا پتہ نہ منزل کا
پھر بھی
اک اجنبی سا خوف دل میں لئے
میں نے تم کو شریک غم مانا
اور شریک حیات بھی جانا
دونوں ایک دوسرے کو جان گئے
ایک ملاقات صاف و سنجیدہ
سنگ بنیاد زیست کہلائی