ثناۓ خواجہ مرے ذہن کوئی مضموں سوچ (ردیف .. ن)

ثناۓ خواجہ مرے ذہن کوئی مضموں سوچ
جناب وادیٔ حیرت میں گم ہوں کیا سوچوں


زبان مرحلۂ مدح پیش ہے کچھ بول
مجال حرف زدن ہی نہیں ہے کیا بولوں


قلم بیاض عقیدت میں کوئی مصرع لکھ
بجا کہا سر تسلیم خم ہے کیا لکھوں


شعور ان کے مقام پیمبری کو سمجھ
میں قید حد میں ہوں وہ بے کراں میں کیا سمجھوں


خرد بقدر رسائی تو ان کے علم کو جان
میں نارسائی کا نقطہ ہوں ان کو کیا جانوں


خیال گنبد خضرا کی سمت اڑ پر کھول
یہ میں ہوں اور یہ مرے بال و پر ہیں کیا کھولوں


طلب مدینے چلیں نیکیوں کے دفتر باندھ
یہاں یہ رخت سفر ہی نہیں ہے کیا باندھوں


نگاہ دیکھ کہ ہے روبرو دیار جمال
ہے ذرہ ذرہ یہاں آفتاب کیا دیکھوں


دل ان سے حرف دعا شیوۂ تمنا مانگ
بلا سوال وہ دامن بھریں تو کیا مانگوں


حضور عجز بیاں کو بیاں سمجھ لیجئے
تہی ہے دامن فن آستاں پہ کیا لاؤں