سمندر جہاز اور میں
ابھی شام تھی اور ہم سفر پر جانے کی تیّاری میں مشغول تھے۔ سورج دھیرے دھیرے مغربی آسمان کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ میں نے گھر سے باہر نکل کر دیکھا تو ہمیشہ کی طرح آج بھی میلے کچیلے اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے چھوٹے چھوٹے بچے کوڑے کے ڈھیروں میں سے لوہے اور ٹین کے ٹکڑے چننے میں مصروف تھے۔ ان کے دائیں بائیں کچھ سوئرتھے جو کوڑے کے ڈھیرمیں اپنی تھوتھنیاں گاڑے گندگی سے اپنے پیٹ بھررہے تھے ۔ میں واپس آیا اور دیکھا کہ میرے تینوں بچے گھر میں نہیں تھے ۔ سوچا کہیں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہے ہونگے ،بچپن ہوتا ہی ایسا ہے۔ بچے اپنے ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ وقت گزارنا اور کھیلنا کودنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
میں نے برآمد ے میں بیٹھی اپنی بیوی ثمینہ کی طرف نظر ڈالی ہی تھی کہ دروازے پر ’’یا علی مولیٰ‘‘کی آواز گونجی ۔ میں لپک کر دہلیز تک گیا تو دیکھا کہ ایک بوڑھا فقیر کھڑا ہے لمبی داڑھی، بکھرے ہوئے بال، لمبا چوغا اور جھکی ہوئی کمر، لگا کہ یہ درویش عام فقیروں سے کچھ الگ ہے ۔ اس نے دست سوال بھی دراز نہیں کیا، میں نے خود ہی اس کی طرف چند سکّے بڑھائے لیکن فقیر نے کوئی ردّعمل ظاہر نہیں کیا اور نہ سکّے تھامے،کہنے لگا ۔۔۔
’’تم جانتے ہو کہ مرنے کے بعد تمہارا کیا حشر ہوگا؟ ‘‘
میں نے جواب دیا ’’میں نہیں جانتا ۔۔۔ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ ؟‘‘
فقیر نے نرم لہجے میں کہا ’’ مرنے کے بعد تمہارا وہی حشر ہوگا جو تم سے پہلے والوں کا ہوا۔‘‘ فقیر کا جواب سن کر میں اور الجھ گیا سمجھ نہیں پایا کہ وہ کہنا کیا چاہتا ہے۔؟میں نے پوچھا ؛
’’ اگلوں کا کیا حشر ہوا؟‘‘
جواب ملا۔۔۔’’ ویسا ہی جیسے یاجن الفاظ میں تم انھیں یاد کرتے ہو۔ ۔۔!‘‘ فقیر نے جواب دیا اور چلا گیا ۔ جاتے جاتے اس کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی۔
’’جیسا تم کرکے رخصت ہو گے، ویسا ہی تم کو یاد کیا جائیگا۔‘‘
فقیر کی بات میری سمجھ میں آگئی تھی۔ ہم سے پہلے رخصت ہوجانے والوں نے جیسے اعمال کیے تھے ان کو ہی سامنے رکھ کر ہم انھیں یاد کرتے ہیں اور جو کچھ ہم کرکے سدھارینگے اسی کی روشنی میں آنے والی نسلیں ہمیں یاد کرینگی۔ ‘‘
میرے ذہن میں ان بچّوں کے چہرے ابھر آئے جو کوڑے کے ڈھیروں پر سوئروں کے بیچ ٹین اور لوہے کے ٹکڑے چن رہے تھے۔ میں اس اجنبی فقیر کو دھیرے دھیرے دور تک جاتا دیکھتا رہا ۔ واپس گھر میں آیا تو ثمینہ برآمدے میں تخت پر بیٹھی عصر کی نماز سے فارغ ہو کر دعا میں مصروف تھی۔ اس کے ہاتھ آسمان کی طرف تھے اور پلکیں جھکی ہوئی تھیں۔ اس کی نورانی شکل اور چہرے کی بشاشت نے مجھے حصار میں لے لیا۔ میں نے اس کے چہرے کو چوما اور اسے باہوں میں لے کر اس کی گرمی کو محسوس کیا پھر ہدایت کی کہ’’ سفر پر جانے کی تیاری شروع کرو کیونکہ بارہ بج کر دس منٹ پر اس جہاز کو روانہ ہونا ہے جو ہمیں اس جنّت تک لے جائے گا جس کے خواب ہمیں ہمارے لوگوں نے اب تک دکھائے ہیں۔۔۔‘‘
ثمینہ سفر پر جانے کی تیاری کرنے کے لیے اٹھی تو کہنے لگی۔۔۔
’’کل رات جو دخانی کشتی کچھ اور لوگوں کو لے کر روانہ ہوئی ہے ہم لوگ اس میں کیوں نہیں گئے ۔۔۔؟اس میں تو جتنے لوگ تھے بیشتر ہمارے رشتے ناطے کے تھے۔۔۔ ‘‘
میں نے ثمینہ کو سمجھایا ’’ ہم میں سے بہت سے لوگ اس اندیشے سے اس کشتی میں سوار نہیں ہوئے کہ اس کشتی کے ملاح پر ہم لوگوں کو اعتبار نہیں تھا۔ جن لوگوں نے اس کشتی کے ملاح پر بھروسہ کیا اور یہ یقین کر لیا کہ جس فردوس گُمشدہ کی انھیں تلاش ہے یہ کشتی ایک دن وہاں ضرور پہنچ جائیگی بس وہی لوگ اس میں سوار ہوئے ہیں ۔ ۔۔ہمارا جہاز آج آدھی رات کے بعد سفر پر روانہ ہوگا۔۔۔!‘‘
شام اور نیچے اتر آئی تھی۔ سبھی لوگ سفر کی تیاری میں مصروف تھے ۔ اس سفر کو طے کرکے ہمیں اس جنّت میں پہنچنا تھا جس کے موائد ہم سے ہمارے ملّاحوں نے بہت پہلے سے کر رکھے تھے۔ رات ہوگئی تو ہم ایک ایک پل گن کر بتا رہے تھے ،سفر کرنے والے سارے لوگ بیدار تھے۔ کوئی ایک بھی سویا نہیں تھا سب کو یہ انتظار تھا کہ کب آدھی رات گزرے اور کب ہمارا سفر شروع ہو۔ تینوں بچے کھانا کھا کر آرام کی نیند سو گئے تھے ۔ انھیں معلوم تھا کہ ہمیں آدھی رات کے بعد سفر شروع کرنا ہے ۔ لیکن بچپن فکر مند نہیں ہوتا ، اسے کوئی تردد بے چین نہیں کرتا ۔ ثمینہ آدھی رات کے وقت سفر کرنے سے ڈر رہی تھی ۔ میں نے بستر پر اسے اپنے قریب کر کے اپنی باہوں کے حصار میں لے لیا لیکن میں نے محسوس کیا کہ وہ خوفزدہ ہے کیونکہ اس کے ہاتھ ٹھنڈے ہو رہے تھے ۔ اس نے میرے ہاتھ کو مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے ۔ میں نے پوچھا تو کہنے لگی ۔۔۔’’بچپن میں میری دادی نے ایک بار مجھے اسی طرح کے ایک سفر کی کہانی سنائی تھی۔ وہ کہتی تھیں کہ’’صدیوں پہلے بھی ایک بادشاہ نے اپنی رعیت کو لے کر سمندر کا سفر کیا تھا۔ وہ بھی ایک ایسے فردوس کا خواب لے کر اپنی رعیت کے ساتھ نکلا تھا جس میں خوبصورت طیور کے چہچہانے کی بشارت دی گئی تھی ۔ پیڑوں پر سونے چاندی کے پھل لدے ہونے، دودھ اور شہد کی نہروں کے جال بچھے ہونے کی بات کہی گئی تھی۔‘‘
میں نے ثمینہ کی بات کا ٹی اور کہا کہ’’ ہمیں بھی ایسا ہی یقین دلایا گیا ہے کہ ہم جس جنّت کی طرف جارہے ہیں وہاں سُکھ اور شانتی ہے، خوشیاں ہیں،دودھ اور شہد کی نہروں کے جا ل بچھے ہیں ، پیڑ ہیں جو پھلوں سے ہر وقت لدے رہتے ہیں ۔‘‘ثمینہ اپنی بات کا سلسلہ ٹوٹ جانے سے تھوڑی برہم ہوئی کہنے لگی، ’’پہلے میری پوری بات تو سن لو۔۔!دادی کہتی تھیں کہ بادشاہ اپنی رعیت کو لے کر سمندر کی طرف چلا، اس نے پہلے سے تیار کرائے گئے جہاز میں ایک ایک کرکے سبھی لوگوں کو سوار کر وایا اور پھر خود بھی اس میں سوار ہوگیا۔فضا پرسکون تھی ، بستیوں میں دیے ٹمٹمانے لگے تھے، آسمان پر ستاروں کی چادر بچھ گئی تھی تبھی ملاح نے لنگر اٹھایا اور بادبان کھول دیے ۔ جہاز دھیرے دھیرے پانی کی لہروں کو چیرتا ہوا آگے بڑھا ۔ جہاں تک نظر جاتی تھی کالے پانی کا پھیلاؤ ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا تھا۔ساحل کاکہیں نام و نشان نہ تھا۔ بادشاہ جہاز میں خصوصی طور پر بنائی گئی مسند پر جلوہ افروز ہو گیا تھا اور ادھر ادھر بیٹھے رعیت کے لوگ اس جنت کے خواب دیکھ رہے تھے جہاں اس سفر کے بعد انھیں پہنچنا تھا۔۔۔دادی بتاتی تھیں کہ رعیت کے لوگوں میں ایک قبیلے کا سردار بھی تھا جس نے اپنے سامان کے ساتھ پُشتوں سے چلی آرہی اپنے بزرگوں کی کئی یادگار یں بھی ساتھ رکھ لی تھیں۔ ان میں سنگ مر مر سے تراشے ہوئے کچھ مجسّمے بھی تھے جو نسل در نسل منتقل ہوتے ہوئے اس تک پہنچے تھے ۔جہاز جیسے جیسے آگے بڑھ رہا تھا مسافر امیدوں سے بھرتے جا رہے تھے ۔ انھیں لگتا تھا کہ وہ ایک ایسی دنیا میں پہنچ جانے والے ہیں جہاں راحت ہی راحت ہے۔‘‘
میں نے پھرثمینہ کی بات کاٹی اور اسے یاد دلایا کہ؛
’’جہاز تو ہم لوگوں کو تاریخ کے ہر موڑ پر کہیں نہ کہیں لے جاتے رہے ہیں پر وہ جنّت آج تک نہیں ملی جس کے خوبصورت خواب ہمیشہ دکھائے جاتے ہیں۔ تم جانتی ہوگی کہ اٹھارہویں صدی کے اوائل میں بھی توگرمٹوں کو پکڑ کر نہ جانے کہاں کہاں لے جایا گیا تھا۔ کلکتّے کے بندرگاہ پر زبردست جم غفیر تھا ، زیادہ تر گاؤں کے نوجوان تھے ۔ کئی نوجوان اپنی بیویوں کو بھی ساتھ لے کر آئے تھے ۔ ان سے کہا گیا تھا کہ تمہیں ایک ایسے ملک لے جایا جا رہا ہے جہاں کی مٹی زر خیز ہے اور دریا موتیوں سے بھرے ہیں۔ جب ہزاروں لوگوں کا یہ قافلہ کئی جہازوں پر سوار ہو کر اس ملک میں پہنچا تو زمینیں بنجر تھیں اور چھوٹے چھوٹے ٹیلوں پر بنا پھل والے درخت سر اٹھائے کھڑے تھے ۔سارے گرمٹوں کو پھاوڑے تھما دیے گئے اور پھر ان سے کڑی مشقّتیں لی گئیں ۔ عورتیں کم تھیں اور گرمٹ مرد کثیر تعداد میں تھے۔ کچھ عرصے بعد عورتوں کی ایسی زبردست چھینا جھپٹی ہوئی کہ اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔‘‘
ثمینہ نے مجھے یہ تذکرہ آگے بڑھانے سے روک کر کہا ؛
’’ تمہیں اچانک یہ واقعات کیسے یاد آگئے ؟ تم جن دنوں کا ذکر کر رہے ہو وہ بہت پرانی بات نہیں ہے۔ گرمٹوں کو تو جبراََ لے جایا گیا تھا اور ان سے کہا گیا تھا کہ انھیں کچھ عر صے بعد ایک اچھی زندگی گزارنے کو ملے گی۔ یہاں سے گئے ہزاروں گرمٹوں میں سے بہت سے وہیں مرکھپ گئے،کچھ وہیں گھر بنا کر آباد ہوگئے اور کچھ واپس آگئے۔ لیکن میں جس جہاز کا ذکرکر رہی ہوں وہ اس سے بہت پرانی بات ہے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے لوگوں کو کتنی بار جہاز وں سے لے جایا جاتا رہاہے ۔ ان جہازوں کے مسافروں نے یا تو خود اچھے اچھے خواب دیکھے یا انھیں آئندہ کے خوبصورت خواب دکھائے گئے ہیں ۔لیکن تم جس گرمٹ ہسٹری کا ذکر کر رہے ہو وہ کوئی بہت قدیم سلسلۂ واقعات کی کڑی نہیں ہے۔ گرمٹوں کا سفر مجبوری کا سفر تھا۔ لیکن میں جس جہاز کی بات کررہی ہوں اس میں بادشاہ اپنی رعیت کو ساتھ لے کر فردوس کی تلاش میں نکلا تھا۔‘‘
میں نے ثمینہ کی بات توجّہ سے سنی اور کہا ؛
’’ اچھاتم اس جہاز کا واقعہ سناؤ جسے بادشاہ اپنی رعیت کے ساتھ لے کر نکلا تھا۔۔‘‘
ثمینہ نے بتانا شروع کیا ؛
’’دادی بتاتی تھیں کہ جب جہاز بیچ سمندر میں پہنچا تو چودہویں رات کا پورا چاند آسمان کے بیچوں بیچ چمک رہا تھا ۔ ہوا شانت تھی اور طوفان آنے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا کہ جہاز اچانک رک گیا ۔ ملّاحوں نے ہر چند کوششیں کیں لیکن جہاز ٹس سے مس نہیں ہوا۔ تب ملّاح نے کہا کہ ہمارے ساتھ جو مسافر ہیں ان کے سامانوں میں کوئی ایسی چیز ہو سکتی ہے جو ’سعد‘نہ ہو اور اس کی وجہ سے جہاز آگے نہ بڑھ رہا ہو ۔ مسافروں کی تلاشی لی گئی تو اس میں وہ مجسمہ دکھائی دیا جو ایک خاندان اپنے بزرگوں کی نشانی کے طور پر ساتھ لے آیا تھا۔جہاز کے نگہبانوں نے وہ مجسّمہ اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا ۔جہاز اب بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا تب بادشاہ نے حکم دیا کہ مجسّمے کے مالک کو بھی اٹھا کر سمندر میں پھینک دو ۔۔۔ ! حکم کی تعمیل کی گئی۔‘‘
ثمینہ دادی کی کہانی سناتے ہوئے یہیں تک پہنچی تھی کہ میں نے خوفزدہ ہو کر اسے چپ کرادیا اور کہا ۔۔۔’’ سفر سے پہلے ایسی نا مبارک باتیں منھ سے مت نکالوکیونکہ سفر درپیش ہو تو ایسی باتیں نہیں کرنا چاہیے جو حوصلے کو توڑتی ہوں۔ ‘‘
ثمینہ خاموش ہوگئی۔ میں نے دوبارہ اسی جنّت کا ذکر چھیڑ دیا جہاں ہمیں اس سفر کے نتیجے میں پہنچنا تھا۔ رات آدھی آئی تو سبھی لوگ جہاز پر جانے کے لیے گھروں سے نکلے ۔ہم نے بھی رخت سفر باندھا اپنے بچوں کو نیند سے بیدار کیا اور خورد و نوش کا ضروری سامان لے کر اپنے ٹوٹے پھوٹے اور خستہ حال گھروں سے رخصت ہوگئے ۔ رات گرم تھی اور برسات کا موسم ہونے کے باوجود بارش کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔
سارے ہی لوگ جہاز میں سوار ہوگئے ۔ کوچ کا نقّارہ بجا ملاحوں نے جہاز کا لنگر کھولا بادبان اٹھا لیے گئے اور جہاز سمندر کی لہروں پر ہچکولے کھاتا ہوا آگے بڑھنے لگا ۔ ابھی کچھ ہی دور آگے آئے تھے کہ سمندر میں اونچی اونچی لہریں اٹھنے لگیں ، ہوا تیز ہوگئی اور ہمیں لگا جیسے ملاح سمت بھول گیا ہو۔ کنارے کا دور تک پتہ نہیں تھا۔ ہم لگاتار سفر کرتے رہے لیکن منزل قریب آنے کی جگہ اور بعید ہوتی چلی گئی۔ جہاز اس کنارے پر جا کر نہیں لگا جو ہمیں بتائی گئی جنت کی طرف لے جاتا ۔مسافر شور مچاتے ہوئے ملّاحوں کو بدلنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ ۔۔!
ملّاح بدل دیے گئے۔ رات تھی اور جہاز ہچکولے کھاتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ کبھی وہ اتنا ترچھا ہوجاتا کہ ہمیں لگتا جیسے ہم سمندر میں گر کر غرق ہوجائینگے کبھی وہ اونچی اٹھتی ہوئی لہروں سے ابھر کر سیدھا کھڑا ہو جاتا جس سے اس کے پلٹ جانے کا خطرہ بڑھ جاتا ۔ مسافر خوفزدہ تھے اور صحیح سلامت منزل پر پہنچنے کی دعائیں کر رہے تھے۔
اچانک ایسا ہوا کہ ہچکولے کھاتا ہوا جہاز سمندر کے بیچوں بیچ پہنچ کر ایک جگہ رک گیا۔ ملاحوں نے ہر چند کوشش کی لیکن جہاز ذرا بھی آگے نہیں بڑھا ۔ کسی نے پھر وہی کہا جو دادی کے جہاز والے نے کہا تھا کہ ؛ ’’جہاز میں ضرور کوئی ایسا شخص یا جنس ہے جس کی وجہ سے جہاز آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔۔۔‘‘کچھ مسافروں نے جن کے بدن پر لمبے کرتے تھے اور آنکھیں سرخ تھیں اس شخص کی طرف اشارہ کیا جو جہاز کے ایک کونے میں سر جھکا ئے بیٹھا تھا ۔ اس کے لمبے بال کندھوں پربکھرے ہوئے تھے، لمبی داڑھی کے بال ہوا سے اڑ اڑ کر اس کی گردن کے عین پیچھے لپک رہے تھے انہوں نے کہا ؛
’’ یہی ہے وہ جس کی وجہ سے جہاز آگے نہیں بڑھ رہا ہے، اس کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دو ۔ ‘‘
جہاز کے نگہبانوں نے جبراََ اس شخص کو دبوچ لیا اس کی تلاشی لی گئی اور پایا کہ جو سامان وہ ساتھ لایا ہے اس میں اس کے بزرگوں کا دیا ہوا ایک گنبد نما مرقع بھی ہے جسے وہ حفاظت سے تھامے ہوئے ہے۔ نگہبانوں نے سب سے پہلے اسی کو نا مبارک سمجھا اوراس سے جبراََ چھین کر سمندر کی گہرائی میں پھینک دیا ۔ لیکن جہاز ابھی بھی نہیں چلا۔ کچھ مسافروں نے پھر شور مچایا ۔ ہنگامے اور دہشت سے جہاز کا ماحول بھر گیا ۔ نگہبان پھر اٹھے اور انھوں نے اس شخص کو کاندھوں سے پکڑ کر جہاز کے عرشے تک کھینچا ۔ اس کام میں اب کی بار کچھ مسافر بھی ان کے مددگار تھے ۔ اس پھٹے حال شخص کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا گیا۔ سمندر میں زبردست چھنا کے کی آواز گونجی ، ایک بھیانک قہقہہ ابھرا اور اس قہقہے میں میں نے سنا کہ پھر اسی فقیر کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی ہے جس نے کہا تھا کہ؛’’تمہارا حشر بھی مرنے کے بعد وہی ہوگا جو تم سے پہلے والوں کا ہوا۔‘‘
جہاز اب تک وہیں رکا کھڑا ہے اور میں ثمینہ کا ہاتھ ہاتھ میں لیے اپنے ان اعمال کا حساب لگا رہا ہوں جن سے موت کے بعد کاحشر متعین ہوتا ہے ۔یہ جہاز آگے کب چلے گا میں نہیں جانتا ۔۔۔!!!