سمندر آسمان اور میں

کھلیں جو آنکھیں تو سر پہ نیلا فلک تنا تھا
چہار جانب سیاہ پانی کی تند موجوں کا غلغلہ تھا
ہوائیں چیخوں کو اور کراہوں کو لے کے چلتی تھیں اور مٹی
کی زرد خوشبو میں موت موسم کا ذائقہ تھا
نظر مناظر میں ڈوب کر بھی مثال شیشہ تہی تھی یعنی
گل تماشا نہیں کھلا تھا
ہراس جذبوں کی رہ گزر میں دل تعجب زدہ اکیلا
خموش تنہا بھٹک رہا تھا


کہ ایک سائے کی نرم آہٹ نے راستوں کا نصیب بدلا
کوئی تعلق کے چاند لہجے میں اپنے پن کی ادا سے بولا
''مرے مسافر اداس مت ہو کہ عہد فرقت ہی زندگی ہے
یہ فاصلوں کی خلیج راہ وصال ہے اور طلب نگاہوں کی روشنی ہے
تمام چیزیں تمہارے میرے
بدن کے رشتوں کا سلسلہ ہیں
تمہیں خبر ہے کہ ہم سمندر
اور آسمانوں کی انتہا ہیں!''