سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا

سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازۂ صحرا


خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں
یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا


نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے
کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا


رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی
کہ وہ حلاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا


خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں غلامی میں
زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا


نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی
تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اولیٰ


بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے مے خانے
یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صہبا


نہ ایراں میں رہے باقی نہ توراں میں رہے باقی
وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاک قیصر و کسریٰ


یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذر و دلق اویس و چادر زہرا


حضور حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی
یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا


ندا آئی کہ آشوب قیامت سے یہ کیا کم ہے
' گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا


لبالب شیشۂ تہذیب حاضر ہے مے لا سے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانۂ الا


دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے
بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا


اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا


غلامی کیا ہے ذوق حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا


بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردان حر کی آنکھ ہے بینا


وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا


فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہو گئے پانی
مری اکسیر نے شیشے کو بخشی سختیٔ خارا


رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے ید بیضا


وہ چنگاری خس و خاشاک سے کس طرح دب جائے
جسے حق نے کیا ہو نیستاں کے واسطے پیدا


محبت خویشتن بینی محبت خویشتن داری
محبت آستان قیصر و کسریٰ سے بے پروا


عجب کیا گر مہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں
کہ بر فتراک صاحب دولتے بستم سر خود را


وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادیٔ سینا


نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طہٰ


سنائیؔ کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ
ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالا