سلونی سردیوں کی نظم
پرانے بوٹ ہیں تسمے کھلے ہیں
ابھی مٹی کے چہرے ان دھلے ہیں
شرابیں اور مشکیزہ سحر کا
ابھی ہے جسم پاکیزہ گجر کا
ستے چہرے پہ استہزا کا موسم
لہو نبضوں سے خالی کر گیا ہے
گلے میں ملک کے تعویذ ڈالو
بدیسی برچھیوں سے ڈر گیا ہے
غزل دالان میں رکھی ہے میں نے
مہک ہے سنگترے کی قاش جیسی
یہ کیسی مے ہے جو چکھی ہے میں نے
مجھے عشاق یہ کہتے ہیں عامرؔ
بہت تنہا سسکتے دہر میں ہو!
بڑے شاعر ہو چھوٹے شہر میں ہو
فریب عصر سے مدہوش کمرا
نگوڑی تتلیوں سے بھر گیا ہے
سمندر پنڈلیوں تک آتے آتے
کسی پتھر کی سل پر مر گیا ہے
سلونی سردیوں سے جھانکتے ہیں
وہ ابرو کشتیوں کو ہانکتے ہیں
سلیٹی بادلوں کا یہ صحیفہ
مری مٹھی میں پڑھتا ہے وظیفہ
میں روتا ہوں تو رو پڑتے ہیں طائر
مرے حجرے میں کم آتے ہیں زائر
یہ پوریں نور بافی کر رہی ہیں
محبت کو غلافی کر رہی ہیں
تفاخر میں ہے دو ہونٹوں کا خم بھی
ابھی رکھا نہیں میں نے قلم بھی