سلیقہ ہے مجھے تاروں سے لو لگانے کا
سلیقہ ہے مجھے تاروں سے لو لگانے کا
کہ میں چراغ نہیں داغ کے گھرانے کا
وہ دیکھ برف کے پھولوں میں جاگتی ہے سحر
یہی ہے کیا ترا انداز مسکرانے کا
خلوص شرط ہے پی لوں گا زہر بھی اے دوست
تو پہلے سیکھ مجھے ڈھنگ آزمانے کا
لیا جو شاخ گل تر کو جھک کے بانہوں میں
وہ اک بہانہ تھا تجھ کو گلے لگانے کا
چلی جو یاد تمہاری الکھ جگاتی ہوئی
بھٹک گیا کوئی جوگی کسی ٹھکانے کا
اڑوں تو چوم لوں تجھ کو کہ ایک جگنو ہوں
تو خواب ہے کسی پربت کے شامیانے کا
مری لگن کا سفینہ نہ ڈوب جائے کہیں
ترا وجود بھنور ہے کسی بہانے کا
ترے کلام ترے جام تیرے نام سے پریمؔ
چمک رہا ہے ستارہ ترے زمانے کا