سالگرہ مبارک بابر اعظم
بابر اعظم 2017 میں انگلینڈ میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی کے بعد سے مسلسل سکور کر رہے ہیں- ٹی ٹونٹی ہو ، ون ڈے یا ٹیسٹ، بابر پاکستان کی طرف سے سکور کر رہے ہیں- پاکستان کو بابر سے پہلے ایسا عمدہ بیٹسمین کب ملا تھا؟ ایسا ہمیں کیوں سوچنا پڑتا ہے؟ کیونکہ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں اچھے بیٹسمین کبھی کبھار ہی آتے ہیں- انضمام، یونس، یوسف،حنیف ، جاوید، ظہیر عباس اور سعید انور کے علاوہ پاکستان کرکٹ میں بڑے بیٹسمین نہیں ملیں گے-
دوسری جانب انڈیا کی موجودہ ٹیم میں کوہلی ،روہت شرما اور دھونی کا وقت ابھی ختم ہوا چاہتا ہے، اس سے پہلے سچن، ڈریوڈ،سہواگ ، گنگولی ، غرض یہ لسٹ طویل سے طویل تر ہوتی چلی جائے گی- یہی حال انگلینڈ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور کسی حد تک نیوزی لینڈ کا بھی ہے- لیکن پاکستان میں پچھلے پانچ چھ سال میں جتنے بھی بہترین بیٹسمین آئے، جلد ہی کہیں کھو گئے- احمد شہزاد، صہیب مقصود، عمر اکمل، ان سب سے بہت زیادہ توقعات لگائی گئی تھیں لیکن کوئی بھی ان توقعات پر پورا نہ اتر سکا- بابر میں ایسا کیا ہے جو ان تینوں اور دیگر پاکستانی بیٹسمینوں میں نہیں ہے؟
بابر اعظم نے کرکٹ کی ابتدا سبھی پاکستانی نوجوان کرکٹرز کی طرح ٹیپ بال کرکٹ اور گھر سے طعنے سننے سے کی تھی- لاہور میں نیشنل اکیڈمی میں شمولیت کے لئے ہونے والے انڈر 16 ٹرائلز میں بابر کو چار میں سے تین میچز کھلائے گئے- ان تین میچز میں بابر کے مطابق اس کی کارکردگی "زیرو" تھی- تین میچز میں اس کا بہترین سکور 30 تھا اور ایسی کارکردگی کے ساتھ نیشنل اکیڈمی میں شمولیت ایک خواب سے زیادہ کچھ نہ تھا- بابر کو اس سے تکلیف ضرور ہوئی لیکن وہ دلبرداشتہ نہ ہوا- بابر اعظم اپنے دو کزنز کے ساتھ ایک گھنٹہ پیدل چلنے کے بعد سب سے پہلے جا کر نیٹ لگاتا اور پریکٹس سیشن سے بہت پہلے پریکٹس شروع کر دیتا اور سب سے آخر تک پریکٹس جاری رکھتا- بابر نے یہ پورے ایک سال کیا اور سال بعد ہونے والے ٹرائلز میں سلیکٹ ہو گیا- بابر کے مطابق "میرا ارادہ پاکستان کی طرف سے انڈر 15، انڈر 16 اور انڈر 19 کھیلنے کا تھا ، اور صرف کھیلنا ہی نہیں تھا- کھیلتے تو سب ہی ہیں، مجھے سب سے اچھی کارکردگی دکھانا تھی-"
اس ناکامی کے وقت بابر 14 سال کا تھا لیکن آج بھی ہر ناکامی کے بعد بابر کا ردعمل یہی ہوتا ہے- یعنی بے تکان محنت۔ بابر اعظم کے بقول انہیں ناکامی پر غصہ ضرور آتا ہے لیکن صرف خود پر، کہ وہ ناکام کیوں ہوئے- بابر کا کہنا ہے کہ ٹیم کے ساتھیوں، یا مخالف کھلاڑیوں پر غصہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا نقصان ہوتا ہے- اس لئے وہ پر سکون رہتے ہیں اور اپنی ناکامی کا غصہ وہ بیٹنگ پریکٹس یا رننگ میں نکالتے ہیں اور یہ بیٹنگ پریکٹس تب تک جاری رہتی ہے جب تک بیٹنگ میں ردھم واپس نہ آ جائے، پھر چاہے اس میں دو گھنٹے ہی کیوں نہ لگیں- بابر اعظم کے سکول کے زمانے کے کوچ جنہیں لوگ "ماما جی" کے نام سے جانتے ہیں، کی ایک ہدایت بابر کبھی نہیں بھولتا جس میں وہ کہتے تھے کہ "پہلی بال بھی خود ہی کھیلو اور آخری بال بھی-" شاید اسی لئے بابر کو آؤٹ ہونا پسند نہیں ہے- یہی محنت، لگن اور صرف اپنی کرکٹ میں دلچسپی ہی بابر کو باقی تمام نوجوان کھلاڑیوں سے ممتاز بناتی ہے-
آج ہی کے دن جنم لینے والے اس سپرا سٹار بلے باز اور موجودہ قومی کپتان کو اس کے جنم دن کی بہت مبارک باد۔