سجدے میں تو ضرور یہ سر دیر تک رہا

سجدے میں تو ضرور یہ سر دیر تک رہا
رزق حرام کا بھی اثر دیر تک رہا


ہر گوشہ بدن پہ سحر دیر تک رہا
آنکھوں سے گفتگو کا اثر دیر تک رہا


سچائی پر سزا تھی یہاں جھوٹ پر وہاں
عالم میں کشمکش کے بشر دیر تک رہا


ترک تعلقات سے سلجھا نہ مسئلہ
بے چین وو ادھر یہ ادھر دیر تک رہا


افسوس مستفیض مسافر نہ ہو سکے
حالانکہ وہ شریک سفر دیر تک رہا


تاریکیاں حسد کی ہی محروم رہ گئیں
روشن خلوص کا تو قمر دیر تک رہا


پیغام حق سنیں کہ سنیں نفس کی صدا
دانشؔ بھی ہو کے زیر و زبر دیر تک رہا