سیف اللہ پراچہ، منگ ہوائیوو اور حقیقی آزادی، غیرت ہے بڑی چیز!
"گوانتانامو میں ہمیشہ کے لیے قید ہوجانے والے قیدی بالکل ہی عوامی شعور سے غائب ہو چکے ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستان میں بھی، (دونوں) پراچہ زیادہ تر بھلائے جا چکے ہیں، سوائے اس کے کہ کبھی کبھار ایسی کہانی کے طور پر بتائے جائیں کہ کیسے شہر میں رہنے والے پڑھے لکھے لوگ عسکری کاروائیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔"
یہ الفاظ برطانوی اخبار گارڈئین میں سیف اللہ پراچہ پر چھپنے والی کہانی سے ہیں۔ 2018 میں چھپنے والی یہ تفصیلی کہانی سیف اللہ پراچہ اور ان کے بیٹے عزیر پراچہ کی بے گناہی کی دہائی چیخ چیخ کر دیتی ہے۔ ان الفاظ میں نہیں کہ سیف اللہ پراچہ پر کیس ہوا اور وہ بے گناہ ثابت ہو چکے ہیں۔ بلکہ ان الفاظ میں کہ ان پر کوئی فرد جرم کبھی عائد ہی نہیں کی گئی۔
صرف گارڈئین ہی نہیں بلکہ ہر ایک شہرت یافتہ عالمی اخبار یہی کہہ رہا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کے ایک ذہین دماغ، ایک کاروباری شخصیت، کئی فلاحی اداروں کے سرپرست کو انیس برس ایسے قید خانے میں رکھا گیا جہاں زندگی ایسے ہے جیسے آپ اپنی قبر میں زندہ درگور ہوں۔ یہ الفاظ میرے نہیں خود پراچہ صاحب کے ہیں۔ کئی عالمی اخبارات میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ اور جانتے ہیں کہ پاکستانی حکام اس ظلم پر چوں بھی نہیں کر سکے۔ رہائی پر پاکستانی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کر دیا۔ "ہمیں خوشی ہے کہ ایک پاکستانی شہری جو کہ بیرونی ملک قید تھا، آخر کار رہا ہو کر اپنے گھر والوں کے ساتھ جا ملا ہے"۔
ایسا کیوں ہے؟ اس کا حقیقی آزادی سے کیا تعلق ہے؟ کیا مارچ کرنے، ، بنا کسی منصوبے، کاوشوں اور نیت کے صرف نعروں پر اکتفا کرنے سے ہم مضبوط ہو سکتے ہیں؟ کیا حکومتوں کو غیر مستحکم رکھ کے اپنے اذہان کی حفاظت کر سکتے ہیں؟ سوالات آپ کے لیے ہیں۔ آپ سوچیے۔ میں آپ کو 2018 میں کینیڈا میں امریکہ کے کہنے پر قید ہونے والی چینی شہری منگ ہوائیو کی کہانی سناتا ہوں۔ آخر اس موقعے پر میرا یہ کہانی سنانے کا کیا مقصد ہے؟ کہانی پڑھیے اور خود سوچیے!اس کا حقیقی آزادی سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ پھر سوچیے جس ڈگر پر ہمارے رہنما ہمیں چلا رہے ہیں، اس سے کیا ہمیں حقیقی آزادی مل جائے گی۔ کیا یہی راستہ ہے حقیقی آزادی کا؟
منگ ہوائیوو کی کہانی اور حقیقی آزادی، غیرت ہے بڑی چیز:
یہ یکم دسمبر دو ہزار اٹھارہ کا دن ہے۔ دنیا کی چوٹی کے موبائل بیچنے والی چینی کمپنی ہواوے کی سی ایف او منگ ہوایوو ہانگ کانگ سے میکسکو جا رہی ہیں۔ راستے میں ان کا جہاز کینیڈا اترتا ہے ۔ وہ کینیڈا کے وینکوور ہوائی اڈے پر جہاز سے اترتی ہیں۔ اگست بائیس دو ہزار اٹھارہ کو ان کے امریکی عدالت کی طرف سے گرفتاری کے وارنٹ پہلے ہی نکل چکے ہیں۔ امریکی حکام کینیڈین حکام سے منگ کی گرفتاری کی درخواست کرتے ہیں۔ کینیڈین حکام حرکت میں آتے ہیں اور منگ کو ہوائی آڈے پر ہی گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
ادھر کینیڈا میں ہواوے کی سی ایف او گرفتار ہوتی ہیں اور ادھر چین میں غم و غصے کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ کیونکہ منگ ہواوے کمپنی کے بانی رن جے فے کی بیٹی اور چینی صوبے سی چوان کے سابقہ گورنر کی نواسی ہیں۔ چینی حکام منگ کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن پھر کینڈین حکام کے عدم تعاون کے نتیجے میں چین میں مائیکل نامی دو کینیڈین شہریوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ دونوں حکومتیں ایک دوسرے پر اپنے اپنے شہریوں پر سیاسی کیس بنانے کا الزام عائد کرتی ہیں۔ نتیجتاً دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات بری طرح متاثر ہو جاتے ہیں۔ چین کینیڈا کی مصنوعات کو بین کر دیتا ہے۔ جس سے کینیڈین معیشت کو ارب ہا ڈالر کا جھٹکا لگتا ہے۔
امریکہ، جو اصل فساد کی جڑ ہوتا ہے، کینیڈا سے منگ کو اس کے حوالے کرنے کی درخواست کرتا ہے۔ کیس کینیڈا کی عدالت میں چلتا ہے۔ اس دوران ادھر منگ کینیڈا میں نظر بند رہتی ہیں اور ادھر چین میں مائیکل نامی دو کینڈین شہری قید۔
آج کینیڈا سے منگ رہا ہو کر چین جا چکی ہیں اور اسی طرح دونوں مائیکل چین سے رہا ہو کر کینیڈا پہنچ چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے، منگ کی ڈیل امریکی حکام سے ہو گئی ہے۔ اس لیے انہیں کینیڈا نے رہا کر دیا ہے۔ اب جب انہیں کینیڈا نے رہا کر دیا ہے تو ادھر چین نے بھی دونوں مائیکل کو رہا کردیا ہے۔
منگ ہوائیو اور سیف اللہ پراچہ کیس کا تقابل، جرم ضعیفی کی سزا:
منگ ہوائیوو کو امریکہ نے کینیڈین ہوائی اڈے پر گرفتار کروایا۔ سیف اللہ پراچہ کو سی آئی اے نے بنکاک کے ہوائی اڈے سے گرفتار کیا۔
منگ چینی کمپنی ہواوے سے تعلق رکھتی تھیں اور کاروباری شخصیت تھیں، پراچہ صاحب بھی پاکستان کاروباری شخصیت تھے،
منگ کو کینیڈا میں ان کے اپنے گھر میں نظر بند رکھا گیا، پراچہ صاحب کو پہلے بگرام قید خانے پھر گوانتانامو میں اذیت بھری جگہوں پر رکھا گیا۔
منگ اڑھائی تین برس قید میں رہیں، پراچہ صاحب انیس برس قید خانے میں رہے۔ صرف وہی نہیں ان کے بیٹے عزیر پراچہ آج بھی قید ہیں۔
منگ پر الزامات فرد جرم عائد ہوئی اور کیس چلا، پراچہ صاحب پر کسی قسم کی کوئی فرد جرم عائد کی ہی نہیں گئی۔ صرف میڈیا میں القاعدہ کے ساتھ تعلق کے شوشے چھوڑے گئے۔
منگ کی قید پر چین نے امریکہ اور کینیڈا کی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا اور پاکستانی حکام چوں بھی نہ کر پائے۔
ذرا سوچیے!