صحرا سے چلے ہیں سوئے گلشن

صحرا سے چلے ہیں سوئے گلشن
خونیں جگران چاک دامن


پیغام بہار دے رہی ہے
داغوں کی جھلک دلوں کی الجھن


رقصاں ہے نسیم برگ گل پر
شبنم میں ہے گھنگھروؤں کی چھن چھن


غنچوں کے بدن میں سنسنی ہے
مستی میں چھوا صبا نے دامن


دل کش نہ ہو کیوں کلام اثرؔ کا
سیکھا ہے یہ اس نے میرؔ سے فن