صحرا کا سفر تھا تو شجر کیوں نہیں آیا

صحرا کا سفر تھا تو شجر کیوں نہیں آیا
مانگی تھیں دعائیں تو اثر کیوں نہیں آیا


دیکھا تھا جسے ہم نے کبھی شوق طلب میں
مہتاب سا وہ چہرہ نظر کیوں نہیں آیا


ہم لوگ تو مرتے رہے قسطوں میں ہمیشہ
پھر بھی ہمیں جینے کا ہنر کیوں نہیں آیا


لگتا ہے مقدر میں مرے سایہ نہیں ہے
مدت سے سفر میں ہوں تو گھر کیوں نہیں آیا


جس کے لیے بیٹھے تھے بچھائے ہوئے آنکھیں
محفل میں ابھی تک وہ بشر کیوں نہیں آیا


موسم تو ہر اک شاخ کے کھلنے کا ظفرؔ تھا
پھر ان پہ کوئی برگ و ثمر کیوں نہیں آیا