صاحب ذوق قاری اور شعر کی سمجھ
کیا کوئی قاری صحیح معنی میں صاحب ذوق ہو سکتا ہے؟ مجھے افسوس ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ کیا کسی ایسے قاری کا وجود ممکن ہے جس کی شعرفہمی پر ہم سب کو، یا اگر ہم سب کو نہیں تو ہم میں سے بیش تر لوگوں کو اعتماد ہو؟ مجھے افسوس ہے کہ اس سوال کا بھی جواب نفی میں ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ قاری صاحب ذوق ہوتا ہی نہیں، یا ہر قاری کی شعرفہمی ناقابل اعتماد ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ شاعر قاری کے وجود یا قاری کے وجود کی ضرورت کا منکر ہو سکتا ہے۔
اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ چونکہ عینی حیثیت سے صاحب ذوق اور صاحب فہم قاری کا وجود فرضی نہیں تو مشتبہ ضرور ہے، لہٰذا شعرفہمی کی تمام کوششیں بےکار ہیں۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ مشکل یا مبہم یا ناپسندیدہ شاعری کو مطعون کرتے وقت ہم صاحب ذوق یا سمجھ دار پڑھے لکھے قاری کے جس تصور کا سہارا لیتے ہیں وہ فرضی ہے۔ یہ شکایت کہ فلاں نظم یا فلاں شاعر خراب ہے یا ناپسندیدہ ہے کیونکہ وہ پڑھے لکھے یا صاحب ذوق قاری کی گرفت میں نہیں آتی، غیرمنطقی شکایت ہے اور یہ دلیل کہ چونکہ پڑھے لکھے لوگوں کو بھی فلاں نظم سے لطف اندوز ہونے کے لیے شرح کی ضرورت پڑتی ہے، لہٰذا فلاں نظم خراب ہے یا ناپسندیدہ ہے، سرے سے کوئی دلیل ہے ہی نہیں۔
ان مسائل کی تفصیل میں جانے سے پہلے دوچار بنیادی باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ اول تو یہ تنقیدی آلے کے طور پر ذوق بالکل بےکار اور ناقابل اعتبار ہے لیکن ایک غیرتنقیدی آلے کے طور پر ذوق انتہائی کارآمد چیز ہے۔ تنقید کی دنیا میں ذوق کا اعتبار اس لیے نہیں ہے کہ ذوق ہمیں حسن کا ایک عمومی علم تو بخشتا ہے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ فلاں فن پارے میں حسن کیوں ہے، ذوق یہ تو بتا سکتا ہے کہ،
در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے
یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ
اور
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اگرچہ تقریباً ہم مفہوم شعر ہیں لیکن فارسی شعر اردو شعر سے بہت زیادہ خوب صورت ہے۔ لیکن ذوق یہ نہیں بتا سکتا کہ فارسی شعر کی خوب صورتی کہاں ہے اور کیوں ہے، یعنی ذوق اگر بہت ہی صحیح ہو تو وہ اتنا تو کردےگا کہ آپ اچھی اور خراب، معمولی اور غیرمعمولی وغیرہ شاعری کو الگ کر سکیںگے۔ لیکن تجزیے کے عمل سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے ذوق اپنی تمام صحت اور سلیم الطبعی کے باوجود کیوں اور کیسے کا جواب دینے پر قادر نہیں ہوتا۔ ذوق کی بےاعتباری کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مختلف پس منظری حرکات اور عوامل کا پابند ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ صحیح فیصلہ نہیں کر پاتا۔
اگر ایسا ہوتا تو دنیا کے مختلف شعرا کی اپنے اپنے زمانے میں صاحب ذوق لوگوں کے ہاتھوں وہ درگت نہ بنتی جو بنتی آئی ہے۔ نقاد بے ذوق یا بدذوق نہیں ہوتا، لیکن وہ محض اپنے ذوق پر بھروسہ نہیں کرتا۔ ممکن ہے کہ وہ اپنے طریقۂ کار میں ذوق کو ایک آغازی جگہ دیتا ہو لیکن ذوق کی پیدا کردہ یا عطا کردہ آغازی آگاہ کو وہ اس وقت تنقیدی فیصلے کی شکل دیتا ہے جب وہ آگاہی اصول نقد کی بھی روشنی میں درست ثابت ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو قاری اور نقاد میں کوئی فرق نہ رہ جائے۔
شعرفہمی ایک تنقیدی عمل ہے، اس کی سب سے بڑی خوبی یا قوت یہ ہے کہ یہ ذوق کے پیدا کردہ رد عمل کے بعد بروئےکار آتا ہے، مثلاً جب میرا ذوق مجھے بتاتا ہے کہ در دشت جنون من۔۔۔ بہتر شعر ہے تو میں شعرفہمی کی کوشش کرتا ہوں اورنتیجے کے طورپر مجھے محسوس یا معلوم ہوتا ہے کہ موضوع کی تقریباً وحدت کے باوجود خودی کو کر بلند اتنا۔۔۔ معنی کے اعتبار سے کم تر ہے۔ اس لیے میں اسے کم تر شعر سمجھنے میں حق بہ جانب تھا۔
یہ بات ملحوظ خاطر رکھیے کہ تنقیدی عمل سے میری مراد نقاد کا عمل نہیں ہے یعنی شعرفہمی ایک تنقیدی عمل تو ہے لیکن نقاد کا عمل محض شعرفہمی نہیں ہے۔ شعرفہمی نقاد کے عمل کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، اتنا چھوٹا کہ اکثر تنقیدوں میں اس کی کارفرمائی کے علامات زیر زمیں ہی رہتے ہیں۔ مثلاً غالب پر کوئی اعلیٰ درجہ کا تنقیدی مضمون اس وقت جنم لیتا ہے جب نقاد اپنے ذوق اور اپنی شعرفہمی کی صلاحیت کو پوری طرح استعمال کرکے کچھ عمومی یا خصوصی نتائج تک پہنچ چکا ہوتا ہے اور پھر ہمیں ان نتائج سے مطلع کرنا شروع کرتا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ کچھ تنقیدیں جو اسی مخصوص مقصد کے لیے لکھی جاتی ہیں، محض شعرفہمی تک محدود رہتی ہیں۔ لیکن نقاد کا عمومی عمل شعرفہمی سے وسیع تر میدان پر ہاتھ مارتا ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہمارا ذوق اکثر ہمیں بتاتا ہے کہ فلاں فن پارہ اچھا یا برا ہے۔ لیکن ہم جب شعرفہمی کی منزل سے گزرتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ ذوق کی فراہم کردہ اطلاع واقعی درست تھی یا نہیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ذوق نے ہمیں بتایا ہو کہ یہ شعر بہت اچھا ہے لیکن شعرفہمی کے بعد معلوم ہوا ہو کہ شعر نہایت معمولی تھا۔ اسی طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے ذوق نے کسی شعر کو بہت خراب کہا ہو لیکن شعرفہمی کے بعد اس اطلاع کی تردید ہو گئی ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شعرفہمی نے ذوق کی فراہم کردہ اطلاع کی توثیق وتصدیق کی ہو۔ اوپر میں نے جو یہ کہا ہے کہ نقاد کا عمومی عمل شعرفہمی سے وسیع تر میدان میں ہاتھ مارتا ہے تو اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ نقاد ہمیں شعرفہمی کے عمل کے لیے پہلے سے زیادہ باصلاحیت بنا دیتا ہے۔
آگے بڑھنے کے پہلے ایک بات کی طرف اور اشارہ کر دوں، ابھی میں نے کہا کہ اقبال کے محولہ بالا شعر موضوع کے اعتبار سے تقریباً ایک ہیں، لیکن ایک بہتر ہے اور ایک کم تر، کیونکہ بہتر شعر معنی کے اعتبار سے بہتر ہے۔ اس کا مفہوم یہ نکلتاہے کہ موضوع کی وحدت کے باوجود فن پاروں میں معنی کی کمی زیادتی یا معنی کی کم تری بہتری ممکن ہے۔ اس سلسلہ میں اپنے معروضات میں کسی اور مضمون میں پیش کروں گا۔
فی الحال یہی کہنا ہے کہ شعرفہمی کا مسئلہ پیدا ہی اس وجہ سے ہوتا ہے کہ موضوع کے اعتبار سے واحد ہونے کے باوجود دو فن پاروں میں معنی کا فرق لازم ہو جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو چھوٹے بڑے، معمولی، غیرمعمولی شعر کی تفریق تو بعد کی بات ہے، شعرفہمی کی ضرورت ہی باقی نہ رہےگی۔ بس یہ کہنا کافی ہوگا کہ فیض کی نظم ’یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر‘ اور ساحر کی نظم ’نشیب ارض پہ ذروں کو مشتعل پاکر‘ طلوع آزادی کے بعد دانش وروں کے ذہن میں پیدا ہونے والی مایوسی کی تصویر پیش کرتی ہے۔ بس معاملہ ختم ہوا۔
لیکن ظاہر ہے کہ یہ کہہ دینے سے تنقید تو کجا بیان یعنی Description کا بھی حق نہیں ادا ہوتا۔ دونوں نظمیں ہم موضوع ہیں۔ دونوں تقریباً ایک ہی زمانہ میں کہی گئی ہیں، لیکن دونوں نظمیں مختلف ہیں، اس لیے کہ دونوں کے معنی میں مکمل مماثلت نہیں ہے۔ کوئی دو شعر یا دو نظمیں یا دو فن پارے مکمل طور پر مماثل ومشابہ نہیں ہو سکتے۔ کسی فن پارے کا مکمل مماثل وہی فن پارہ ہو سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی انسان کا مکمل ہم شکل وہی انسان ہو سکتا ہے، کوئی دوسرا انسان نہیں، حتی کہ اس کی تصویر بھی نہیں، لہٰذا شعرفہمی وجود میں آتی ہے یہ سمجھنے اور سمجھانے کے لیے کہ مختلف فن پاروں میں کیا معنی ہیں اور وہ آپس میں ایک دوسرے سے کس طرح اور کس درجہ مختلف ہیں۔ ان توضیحات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ،
(۱) باذوق قاری وہ ہے جو ہمیشہ نہیں تو اکثر وبیش تر اچھے اور خراب فن پاروں میں فرق کر سکے۔
(۲) اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا قاری حتی الامکان تعصبات، پس منظری مجبوریوں اور ناواقفیتوں کا شکار نہ ہوگا۔
(۳) شعرفہم قاری وہ ہے جو ذوق کی بہم کردہ اطلاع کو پرکھ سکے۔
(۴) اس کا مطلب یہ ہے کہ شعرفہم قاری ذوق پر مکمل اعتماد نہیں کرتا۔
(۵) اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ شعرفہمی کا کمال یہ ہے کہ قاری ان فن پاروں سے بھی لطف اندوز ہو سکے جو اسے پسند نہیں آتے یا جنھیں اس کے ذوق نے خراب قرار دیا تھا۔
(۶) باذوق اور شعرفہم قاری میں سب سے اہم قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں کی زبان فہمی کے مرحلے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ جب تک آپ شعر کے الفاظ نہ سمجھیں گے آپ کا ذوق متحرک نہ ہو سکےگا اور نہ ہی آپ شعرفہمی شروع کر سکیں گے، لہٰذا قاری صاحب ذوق ہو یا شعرفہم یا دونوں، اس کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے۔
آپ غور فرمائیں کہ یہ شرائط میں نے اپنی مرضی سے نہیں عائد کیے ہیں۔ ذوق اور شعرفہمی کے توام تصورات کا تقاضا یہی ہے کہ صاحب ذوق اور شعرفہم ہو تو ایسا ہو، لیکن میں نے جو شروع میں کہا ہے کہ صحیح معنی میں صاحب ذوق قاری کا وجود ممکن نہیں ہے اور نہ ہی کسی ایسے قاری کا وجود ممکن ہے جس کی شعرفہمی پر بیشتر لوگوں کو اعتماد ہو، تو اس معنی میں نہیں کہ مندرجہ بالا شرائط ایسے ہیں جن کا پورا ہونا کسی انسان کے لیے عملاً و عقلاً محال ہے۔
میں فرض کیے لیتا ہوں کہ ایسے انسان کا وجود عقلاً اور عملاً ممکن ہے، جس میں وہ تمام خواص موجود ہوں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ عینی حیثیت سے صاحب ذوق اور شعرفہم قاری کا وجود ممکن نہیں ہے، اور اس نتیجے کے بعد یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ جب لوگ صاحب ذوق اور شعرفہم قاری کے حوالے سے کسی فن پارے کی تعریف یا تنقیص کرتے ہیں تو دراصل اپنا اور صرف اپنا حوالہ دیتے ہیں۔ یہ لوگ شاعری کے ابہام کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شاعروں نے قاری کو بالکل نظرانداز کر دیا ہے۔ انھیں اگر ایسی شاعری کرنا ہے تو اس کی شرح اور پرچہ ترکیب استعمال بھی ساتھ ہی ساتھ کیوں نہیں شائع کراتے۔
درحقیقت یہ لوگ ان شعرا سے بھی زیادہ ابہام اور اشکال کے قائل ہیں جن کے یہ شاکی رہتے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں صرف وہی نظم مبہم یا مشکل یا خراب ہے جسے وہ خراب یا مبہم یا مشکل کہیں۔ وہ ہزاروں کی اس اکثریت کو جو ایسی بہت سی نظموں کو مبہم یا مشکل یا سرے سے مہمل اور ناقابل فہم کہتی ہیں، جو ان کی (یعنی احتجاج کنندگان کی) سمجھ میں آجاتی ہیں، بالکل نظرانداز کر دیتے ہیں۔
میرا دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ کسی شاعر کا مثالی قاری صرف وہ شاعر ہی ہو سکتا ہے، کوئی دوسرا شخص مثالی شعرفہم ہو ہی نہیں سکتا، لہٰذا وہ لوگ جو کسی مثالی قاری کے حوالے سے کہتے ہیں کہ فلاں نظم اس کی بھی سمجھ سے بالاتر ہے، اس لیے وہ نظم یقیناً خراب یعنی معنی سے عاری ہوگی، دراصل ایک ناممکن بات کہتے ہیں، کیونکہ اپنے کلام کا مثالی قاری اگر خود شاعر ہی ہے تو ظاہر ہے اس مثالی قاری کے لیے وہ کلام بے معنی نہ ہوگا، لہٰذا یہ تمام دعوے کہ فلاں نظم کو ایک مثالی قاری بھی، جو انتہائی عالم، شعرفہم اور باذوق ہے، نہیں سمجھ سکتا اور ان دعووں سے یہ نتیجہ نکالنا کہ فلاں نظم یقینا ًبے معنی ہے، غیرتنقیدی اور لاطائل اعمال ہیں۔
میں اس بات کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ میرا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اگر عینی حیثیت سے صاحب ذوق کا وجود نہیں ہے یا اگر شاعر کا مثالی قاری خود شاعر ہی ہو سکتا ہے تو پھر شعر سے لطف اندوز ہونے، اس کو پسند ناپسند کرنے، اس کی تفہیم وتجزیہ کرنے کے تمام اصول واعمال بے معنی یا فضول یا لاحاصل ہیں۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ شاعری کو مطعون کرنے والوں نے صاحب ذوق اور صاحب فہم قاری کے جن تصورات Concepts کا سہارا لے کر اسے مطعون کیا ہے، وہ تصورات ہی سرے سے غیرتنقیدی اور فرضی ہیں، ورنہ ایسا نہیں ہے کہ اچھے برے شعر کی تمیز یا شعر کی تفہیم ممکن نہیں ہے۔
دراصل یہ ہے کہ لوگوں نے شاعری اور خاص کر جدید شاعری کو لعنت ملامت کرنے کے لیے اپنی نارسائیوں اور کم فہمیوں کو Rationalize کرنا چاہا ہے۔ یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ فلاں نظم میری سمجھ میں نہیں آتی، اس میں میراہی قصور ہوگا، لہٰذا فوراً ایک فرضی ذوق یا صاحب فہم پڑھے لکھے قاری کا تصور گڑھ لیا اور اس کے حوالے سے کہہ دیا کہ جب نظم ایسے ایسے جید لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے تو قصور نظم ہی کا ہوگا، ہم تو بری الذمہ ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ بعض نظمیں مہمل ہوں، یہ ممکن ہے کہ بہت ساری جدید شاعری جسے لوگ خراب قرار دیتے ہیں واقعی خراب یا مہمل ہو، لیکن اس کی دلیل یہ نہیں ہو سکتی کہ صاحب ذوق اور پڑھے لکھے قاری اسے خراب کہتے ہیں، اس کی دلیل اگر ہوگی تو یہ کہ تنقید کے معیار واصول کی روشنی میں یہ خراب یا مہمل ٹھہرتی ہے۔
صاحب ذوق اور صاحب فہم قاری کے حوالہ سے شعر کو پرکھنے والوں کا تجزیہ کیا جائے تو ان کے رویے کے تین پہلو آسانی سے دکھائی دیتے ہیں،
(۱) یہ لوگ اس قاری کو نظرانداز کر دیتے ہیں جس کا معیار ان سے پست تر ہوتا ہے۔
(۲) یہ لوگ اس شاعری کو قبول کر لیتے ہیں جو ان کی سمجھ میں آ جاتی ہے اور
(۳) یہ لوگ اس شاعری کو مطعون کرتے ہیں جو ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔
اس تجزیہ میں پہلی صورت حال سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ اسی سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ ہر شخص صاحب ذوق اور صاحب فہم قاری کا انفرادی تصور رکھتا ہے اور یہ تصور بعینہٖ اس شخص کی صلاحیت، شعرفہمی اور علمی سطح کا نقش ہوتا ہے، مثلاً ایک شخص ندا فاضلی کے اس شعر کو شرح طلب لہٰذا ناقابل قبول گردانتا ہے،
سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا
کھڑکی کا پردہ کھینچ دیا رات ہو گئی
وہ کہتا ہے کہ کوئی بھی صاحب ذوق یا صاحب فہم قاری اس شعر کو نہیں سمجھ سکتا، لیکن وہ غالب کے شعر،
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
جس کے بازو پر تری زلفیں پریشاں ہو گئیں
کے بارے میں یہ بات نہیں کہتا۔ اسے اس بات کی کوئی شکایت نہیں ہوتی کہ غالب نے لفظ ’’پریشاں‘‘ جس معنی میں استعمال کیا ہے وہ عام مفہوم سے مختلف، لہٰذا شرح طلب ہے۔ ظاہر ہے کہ ہزارہا قاری ایسے ہوں گے جن کے لیے لفظ ’’پریشاں‘‘ کے نسبتاً غیرمعمولہ استعمال کی وجہ سے غالب کا یہ شعر ناقابل فہم ہوگا۔ نریش کمار شاد کی شرح غالب میں ایسی کئی مثالیں نظر آتی ہیں جہاں انھوں نے لفظ کے غیرمعمولہ استعمال کو نہ سمجھ کر شعر کا مطلب خبط کر دیا ہے۔ اس حد تک تو نہیں لیکن اس کی مثالیں دوسروں کے یہاں بھی تلاش کی جا سکتی ہیں۔
کمال احمد صدیقی نے نسخۂ امروہہ کی تنقید میں ایک جگہ مندرجہ ذیل مصرع ع افسانۂ زلف یار سر کر۔۔۔ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ مصرع غالب کا نہیں ہو سکتا کیونکہ افسانہ سر کرنا مہمل ہے، غالب ایسا مہمل محاورہ کہاں لکھ سکتے تھے۔ زلف سر کرنا سناہے، افسانہ سر کرنا کس نے سنا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ سر کردن بہ معنی آغاز کردن فارسی کا مشہور محاورہ ہے۔ اب جن لوگوں کو یہ محاورہ معلوم ہے وہ اس مصرع کو مہمل نہ کہیں گے، لیکن جن کو نہیں معلوم ہے، ممکن ہے کہ وہ اسے مہملہ کہہ دیں۔ یعنی دونوں صورتوں میں ان لوگوں کا خیال نظرانداز ہو جائے جو اس مخصوص گروہ میں شامل نہیں ہیں۔ جس شخص کو سرکردن کا محاورہ معلوم ہے، وہ اس کی شرح نہ طلب کرےگا لیکن وہ یہ بھول جائےگا کہ ایسے بھی لوگ ہوں گے جنھیں اس محاورے کی خبر نہ ہوگی۔ ان کے لیے مصرع ’’افسانۂ زلف یار سر کر‘‘ بھی مہمل ہو سکتا ہے۔
اب فرض کیجئے کہ اس مصرع کی روشنی میں غالب کی مہملیت کا مسئلہ دو شخصوں کے سامنے درپیش ہے۔ دونوں صاحب ذوق اور صاحب فہم قاری کے نظریے پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک جو سر کردن سے ناواقف ہے جھٹ کہہ دےگا کہ غالب نہایت مہمل گو تھے کیونکہ صاحب ذوق لوگ بھی افسانۂ زلف یار سر کر کو نہیں سمجھ پاتے کہ یہ ہے کیا بلا؟ دوسرا کہے گا آپ غلط کہتے ہیں۔ صاحب ذوق لوگوں کی نظر میں غالب بالکل مہمل گو نہیں تھے۔ یہ مصرع بالکل صاف ہے۔ دونوں کے نتائج بھی غلط ہیں اور دلائل بھی۔
لیکن میں نے غالب کی مثال شاید غلط رکھی ہے۔ ابہام کے دفاع میں جو کچھ کہا جاتا ہے اس میں غالب کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے۔ میں ابہام کا دفاع نہیں کر رہا ہوں۔ میں تو صاحب ذوق اور صاحب فہم یا پڑھے لکھے قاری جیسی اصطلاحوں کی فضولیت ثابت کر رہا ہوں۔ لیکن آپ کو خیال گزر سکتا ہے کہ غالب کے کلام سے مثال دے کر تو کوئی کچھ بھی ثابت کر سکتا ہے، لہٰذا دوسری مثالوں پر غور کیجئے۔ ہمارا نکتہ چیں جو صاحب ذوق وفہم قاری کے حوالہ سے کہتا ہے کہ احمد ہمیش کی نظمیں ناقابل فہم لہٰذا ناقابل قبول ہیں اور ان کو قبول کرنا تو بڑی بات ہے، ان پر غور کرنے سے پہلے ان کی شرح مانگتا ہے۔ مومن کے اس شعر کو خوشی خوشی قبول کرتا ہے،
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
اور کہتا ہے صاحب اس طرح کی صاف، سادہ اور خوب صورت شاعری ہو تو کیا خوب ہے، کوئی صاحب ذوق قاری اس شعر کو ناقبول نہیں کر سکتا۔ لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے کہ بہت قاری ایسے ہوں گے جن کے لیے اس شعر کا قول محال بالکل ناقابل فہم ہوگا۔ وہ کہیں گے یہ کیوں کر ممکن ہے کہ جب کوئی بھی موجود نہ ہو تو معشوق موجود ہو۔ معشوق تو وہاں تھا ہی نہیں، وہ کہاں سے آ پڑا؟ وہ گویا کی ذو معنویت پر بھی پریشاں ہوں گے اور سوچیں گے کہ ’’گویا‘‘ گفتن کا اسم فاعل ہو، یا بمعنی جیسے ہو؟
وہ لوگ اس شعر کی شرح طلب کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔ لیکن ہمارا صاحب ذوق قاری ایسے لوگوں کے تقاضوں کو نظرانداز کر جائےگا چونکہ اس کے لیے یہ شعر سہل الفہم ہے۔ لہٰذا اسے ان لوگوں کی کوئی فکر نہیں ہوتی جو اس کے معنی سمجھنے میں بہک سکتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس طرح اگر ہر شخص اپنے اپنے معیار سے شرح مانگتا رہا تو تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔۔۔ کی بھی شرح شاعر پر لازم آئےگی۔
اس سلسلہ کو ذرا اور پھیلائیے تو اوربھی زیادہ مشکل صورت حال سامنے آتی ہے۔ سب ’’صاحب ذوق‘‘ قاری ہر بات پر تو متفق نہیں ہو سکتے اور نہ سب لوگ ہر بات پر متفق ہو سکتے ہیں، لہٰذا ہر شخص اپنے اپنے صاحب ذوق قاری کے معیار سے مختلف نظموں، اشعار کی شرح طلب کرےگا یا انھیں مہمل اور ناقابل قبول ٹھہرائےگا۔ انجام کار یہ ہوگا کہ شاعری کا تقریباً تمام سرمایہ ناقابل قبول، شرح طلب اور مہمل ہے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں بہت بڑے نقاد نے فلاں نظم کو مہمل کہا ہے لہٰذا ہم بھی اسے مہمل کہیں گے۔ اول تو ہر بڑے نقاد کی ایک رائے کے مقابلہ میں کسی دوسرے بڑے نقاد کی رائے پیش کی جا سکتی ہے۔ لیکن پتے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی نقاد ایسا نہیں ہے جس کی ہر بات سے آپ سو فی صدی متفق ہوں۔
پھر کیا وجہ ہے کہ کسی مخصوص نظم یا کسی مخصوص شاعر یا کسی مخصوص قسم کی شاعری کے بارے میں اس نقاد کی نکتہ چینی کو آپ سند ٹھہرا دیتے ہیں؟ مثلاً ایک نقاد کہتا ہے کہ افتخار جالب یا عادل منصوری مہمل گو ہیں۔ آپ بھی کہہ اٹھتے ہیں کہ ہاں صاحب بالکل مہمل گو ہیں، فلاں نقاد نے کہا ہے۔ لیکن وہی نقاد ایک اور جگہ کہتا ہے کہ (مثلاً) روش صدیقی (مثلاً) سردار جعفری سے بڑے شاعر ہیں، تو آپ اس بات سے فوراً انکار کر دیتے ہیں، ایسا کیوں ہوتا ہے؟
تیسری بات یہ ہے کہ ہماری بحث نقادوں کی رایوں اور فیصلوں کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس پراسرار نقاب پوش شخصیت کے بارے میں ہے جسے آپ باذوق، باصلاحیت قاری کہتے ہیں۔ وہ پراسرار نقاب پوش شخصیت آپ خود ہیں کیونکہ اس شخصیت کے حوالے سے جو بھی باتیں آپ کہتے ہیں وہ ان لوگوں کو نظرانداز کر دیتی ہیں جو آپ سے کم تر یا بہتر شعرفہم یا زباں شناس ہیں۔
مثلاً یہ بات میں نے کہیں نہیں سنی یا پڑھی کہ گلزار نسیم ایک مہمل نظم ہے، حالانکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گلزار نسیم میں صدہا مصرعے ایسے ہیں جن کو سمجھنے کے لیے مخصوص قسم کا علم درکار ہے۔ لیکن چونکہ نکتہ چیں حضرات اپنے درسی مطالعے کی بدولت اس نظم سے کم و بیش واقف ہیں، لہٰذا ان لوگوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے، جو اس علم سے بے بہرہ ہیں، نظم کو قبول کر لیتے ہیں۔ ان نکتہ چیں حضرات کے ذہن میں صاحب ذوق وفہم قاری کا جو تصور ہے وہ ان لوگوں کے تصور سے یقینا ً مختلف ہوگا جو گلزار نسیم کی لفظی پیچیدگیوں کے سامنے سپر ڈالنے پرمجبور ہیں۔ وہ لامحالہ یہ کہیں گے کہ صاحب ذوق قاری کی نظر میں گلزار نسیم مشکل اور شرح طلب ہے۔
اس حقیقت کو ایک اور طرح سے دیکھیے۔ افتخار جالب کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ باذوق لوگوں کی نظر میں ان کی بیش تر شاعری مہمل یا ناقابل قبول ہے۔ بیش تر میں نے اس لیے کہا کہ یہی باذوق حضرات ان کی نظم ’’دھند‘‘ کو قبول کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اردو کی اچھی نظموں میں سے ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ’’دھند‘‘ کے اسلوب میں اتنی اجنبیت نہیں ہے جتنی (مثلاً) ’’قدیم بنجر‘‘ میں ہے۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بہت سے لوگوں کی نظر میں (اور ان بہت سے لوگوں میں نقاد بھی شامل ہیں) ’’دھند‘‘ بھی ایک ناقابل فہم نظم ہے۔ اب ہمارا فرضی ’’باذوق قاری‘‘ کیا کہہ سکتا ہے؟ کچھ ’’باذوق قاری‘‘ اپنی ہی شکل کی دوسری مورتی بنا لیتے ہیں جو ’’دھند‘‘ کو ناقابل فہم کہتی ہے۔ دوسرے باذوق قاری ان سب کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ’’دھند‘‘ کی شرح نہیں طلب کرتے لیکن’’قدیم بنجر‘‘ کو لعنت ملامت کرتے ہیں۔
بات بالکل صاف ہے۔ ہر ’’باذوق قاری‘‘ اپنی رسائی یا نارسائی کی روشنی میں ذوق اور شعرفہمی کی حدبندی کرتا ہے۔ جب میں نے ’’نئے نام‘‘ کے لیے ’’ترسیل کی ناکامی کا المیہ‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل دیباچہ لکھا، جس میں جدید شعرا کے ابہام واشکال کے مسئلہ سے بحث کی گئی تھی تو ایک بہت پڑھے لکھے اور باذوق قاری کے معیار کی روشنی میں شعر کو پرکھنے والے نقاد نے لکھا کہ یہ سارا دیباچہ بےکار ہی گیا کیونکہ اس انتخاب میں صرف دو شاعر (مراد غالباً احمد ہمیش اور افتخار جالب سے تھی) ایسے ہیں جن کے یہاں ترسیل کی ناکامی کا المیہ دکھائی دیتا ہے۔
اس کے برخلاف سیپ کراچی میں تبصرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے ’’باذوق قاری‘‘ کے معیار پرست نقاد نے اس مجموعہ میں شامل درجنوں شاعروں کے یہاں یہی المیہ دیکھا۔ تیسری طرف یونیورسٹیوں میں اردو پڑھانے والے کئی اساتذہ نے مجھ سے کہا (اور لکھا بھی) کہ ’’نئے نام‘ کی بیش تر نظمیں فہم وافہام سے ماورا ہیں۔ یہ اساتذہ بھی ’’باذوق قاری‘‘ کے ڈنڈے سے سب کو ہانکتے رہتے ہیں۔ چوتھی طرف ایک اور پروفیسر ہیں جو حسن شہیر کی نظموں کو سچی جدیدیت کی مثال سمجھتے ہیں اور ’’نئے نام‘‘ میں شامل بیش تر شاعروں سے گھبراتے ہیں۔
ان مسلسل مثالوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ باذوق اور شعرفہم قاری کا تصور ایک انفرادی تصور ہے ہ اور اس کی اصل درحقیقت خود اس شخص کی ذات ہے جو اس تصور کے حوالے سے گفتگو کرتا ہے۔
اگر بفرض محال یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ ایسا نہیں ہے، تو بھی باذوق قاری کا عینی تصور قائم کرنے میں ایک بڑی قباحت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے خود شاعر کا تصور مشتبہ ہو جائےگا۔ مثلاً اگر باذوق قاری کے خیال کی روشنی میں کہا جائے کہ کوئی شاعر مہمل گو ہے یا بہت خراب ہے تو لامحالہ یہ سوال اٹھےگا کہ ایسا شاعر باذوق ہے کہ نہیں۔ ظاہر ہے جس شاعر کی شاعری باذوق قاری کے معیار سے فروتر ٹھہرتی ہے، وہ کلیۃً نہیں، تو یقیناً اس حد تک جس حد تک اس کا کلام ذوق کے معیار سے فروتر ہے، بے ذوق یا بدذوق ٹھہرےگا۔ اب فرض کیجئے وہی شاعر آئندہ زمانے کے باذوق قاری کی نظر میں اچھا شاعر ٹھہرتا ہے۔ سوال یہ اٹھےگا کہ جو شاعر پہلے زمانے میں بدذوق یا بے ذوق ثابت ہو چکا ہے، اب اچھا شاعر کیوں کر ہو سکتا ہے؟
لیکن اس سے زیادہ مشکل صورت حال یہ ہوگی کہ ممکن ہے جس شاعر کو چار باذوق قاری خراب شاعر یعنی بدذوق یا بے ذوق مانتے ہیں، ایک باذوق قاری اسے اچھا شاعر یعنی باذوق وخوش ذوق بھی مانتا ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ تنقیدی محاکمے کیے جائیں تو پتہ لگے کہ وہ شاعر واقعی بہت اچھا تھا۔ اس قسم کی مشکل بہ ظاہر تو محض خیالی معلوم ہوتی ہے لیکن اس کی واقعیت اس وقت قائم ہو جاتی ہے جب ہم باذوق قاری کے تصور کو عینی تصور مان لیتے ہیں۔ اس طرح ہر شاعر کا وجود کسی فرضی باذوق قاری کا محتاج ہوتا ہے اور تجریدی سطح پر شعر کے حسن یا شاعرانہ ہیئت کے وجود کا کوئی معیار نہیں رہ جاتا۔ تنقیدی نظریہ تو یہ بتاتا ہے کہ ممکن ہے کہ شاعر کو سارے ہی باذوق قاری خراب کہتے ہوں لیکن وہ اچھا ہو یا کسی شعر کو سارے ہی باذوق قاری اچھا کہتے ہوں لیکن وہ خراب ہو۔
ایک ایسی انتہائی صورت حال بھی ممکن ہے کہ کسی شعر کا پڑھنے والا کوئی نہ ہو لیکن پھر بھی وہ اچھا شعر ہو اور اگر شعر کو ایک تصوراتی ہیئت Concepts کی شکل میں سمجھا جائے تو یہ بھی ممکن ہے بلکہ ضروری ہے کہ شعر اپنی خوبی کے لیے کسی قاری کا محتاج نہ ہو، بلکہ فی نفسہ خوب صورت ہو۔ شعر کی خوب صورتی کو پہچاننے، پرکھنے اور بیان کرنے کے لیے کچھ اصول تو متصور ہو سکتے ہیں لیکن میں کسی ایسی صورت حال کا تصور نہیں کر سکتا جس میں شعرا کا حسن اپنے وجود کے لیے باذوق قاری کا محتاج ہو۔
ذوق کی اعتباریت اس وقت اور بھی مشتبہ ہو جاتی ہے جب ہم کسی بھی شاعر کا کلام پڑھتے وقت اچھے برے اشعار کی ایک خود کارتفریق کرتے چلتے ہیں۔ اگر کوئی شاعر اچھا ہے تو باذوق قاری کے نظریے کی رو سے اس سے خراب شعر سرزد ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ اچھا شاعر باذوق بھی ہوگا اور جب وہ باذوق قرار پایا تو خراب شعر سرزد ہونے کے معنی ہیں کہ وہ درجۂ ذوق سے گر گیا۔ درجۂ ذوق سے گر جانے کے معنی ہوئے کہ ذوق قائم و دائم شے نہیں ہے بلکہ کامیاب و ناکام ہوتی رہتی ہے اور اگر ذوق کامیاب و ناکام ہوتا رہتا ہے تو پھر اس کی اعتباریت کہاں رہی؟
باذوق قاری کا نظریہ قائم کرنے والے حضرات کے دلائل و خیالات تو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ باذوق قاری کی قوت فیصلہ غلطی کر ہی نہیں سکتی۔ اگر ایسا ہے تو ان کے معیار سے اچھا شاعر (جو لامحالہ باذوق ٹھہرےگا) کبھی خراب شعر نہیں کہہ سکتا۔ لیکن ظاہر ہے کہ اچھے سے اچھے شاعروں نے لچر اور لغو شعر بھی کہے ہیں۔ تو پھر یہی کہنا پڑتا ہے کہ ایسے ذوق کا تصور محال ہے جو غلطی نہ کرے، لہٰذا یہ بھی کہنا پڑےگا، عینی حیثیت سے باذوق قاری کا بھی وجود ممکن نہیں ہے۔
باذوق قاری کی عینی حیثیت کے ساتھ ایک جھگڑا اور بھی ہے۔ زمانے کے ساتھ ذوق بدلتا رہتا ہے، یہ بات ہم سب جانتے ہیں۔ زمانہ کے ساتھ بدلتے جانا یا اس کے حیطۂ اختیار میں کچھ کمی بیشی ہونا اگرچہ ذوق کی مستقبل اعتباریت کے خلاف ایک مضبوط دلیل ہے۔ لیکن یہ اتنی اہم نہیں ہے جتنی یہ دلیل کہ ذوق میں تبدیلیاں غیرشاعرانہ یا غیرتنقیدی تصورات کی مرہون منت ہوتی ہیں۔ بہت سے موضوعات یا جذباتی کیفیات جو آج بھونڈے یا بدمذاق سے معلوم ہوتے ہیں یا بہت سے اسالیب اظہار جو آج سنجیدہ شاعری میں متصور بھی نہیں ہو سکتے، ایک زمانہ ہوا بہت مقبول تھے۔ حالی بہت بڑے نقاد سہی لیکن انھوں نے بھی کنگھی، چوٹی، قاصد، بلبل، رشک، معشوق کی ظلم کوشی، عاشق کی ایذا پسندی وغیرہ کو شاعری سے باہر کرنے کے لیے کوئی ادبی یا شاعرانہ دلیل نہیں رکھی تھی، یعنی انھوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ ان مضامین یا ان اسالیب میں شعری نقطۂ نظر سے فلاں فلاں برائیاں ہیں۔
اردو کے شاعروں نے کچھ تو حالی کے اثر سے، کچھ انگریزی تعلیم کی روشنی میں، کچھ ترقی پسند نظریات کے زیر سایہ اور اس طرح کے بہت سے غیرمحسوس اور محسوس دباوؤں (Pressures) میں آکر بعض مضامین کو بھونڈا اور بدمذاقی پر مبنی کہہ دیا اور بعض کو رہنے دیا۔ مثلاً آپ یہ غور کریں کہ مندرجہ ذیل مضامین میں کیا خرابی ہے، معشوق کی ظلم کوشی، عاشق کی ایذا پسندی، عاشق کا ضعف، معشوق بحیثیت قاتل، معشوق بحیثیت کم سن لونڈا (یا لونڈیا)، معشوق بحیثیت شاہد بازاری، دربان کی بے اعتنائی، رقیب کی چال بازی اور عاشق دشمنی وغیرہ۔ ان مضامین میں بھی وہی فضا ہے جو مندرجہ ذیل مضامین میں ہے، کارواں، منزل، مسافر، عاشق بحیثیت بلبل، معشوق بحیثیت پھول، نامہ بر اور عاشق کے رشتے، معشوق بحیثیت رہزن، دنیاوی دوست بحیثیت رہزن، عاشق یا انسان بحیثیت طائر، نشیمن طوفان، ساحل، بجلی، معشوق بحیثیت بہار، دنیا بحیثیت خزاں۔
دونوں طرح کے مضامین میں طرح طرح کی نازک خیالیاں ممکن ہیں، دونوں طرح کے مضامین سے نہ صرف اردو شاعری بھری ہوئی ہے بلکہ دونوں ہی طرح کے مضامین اردو شاعری کے بہترین سرمایہ میں پروئے ہوئے ہیں۔ دونوں فہرستوں میں درج کردہ مضامین میں کوئی ایسا نہیں ہے جسے غالب یا درد یا سودا یا میر نے متعدد بار نہ باندھا ہو لیکن اندھے ذوق کی جادوگری دیکھیے کہ پہلی صف کے مضامین تو آج بدمذاقی کا نمونہ ٹھہرتے ہیں اور دوسری صف کے مضامین کو زیادہ تر لوگ آج بھی اپنی شاعری میں آزادی سے استعمال کر لیتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ غالب اور میر اور درد اور سودا تو کیا، پچھلے زمانے کے درجہ دوم وسوم کے بھی شعرا کے یہاں جب یہ مضامین نظر آتے ہیں تو ہم ناک بھوں نہیں چڑھاتے، لاحول نہیں پڑھتے، بلکہ جو شعر ہمیں اچھے معلوم ہوتے ہیں، ہم انہیں لطف لے کر پڑھتے، پڑھاتے اور دوسروں کو سناتے ہیں۔
اگر باذوق قاری یا باذوق شاعر اپنے معیار اور فیصلوں میں تنقیدی آگاہی سے کام لیتا ہوتا تو یہ بات ہرگز نہ ہوتی۔ اگر ہم ذوق کو معتبر سمجھتے ہیں تو پھر یہ ماننا پڑےگا کہ میر وغالب وغیرہ کے وہ اشعار جن میں رشک یا ضعف کے مضامین ہیں اور جو ہمیں اچھے بھی لگتے ہیں، کسی ایسے زمرے میں آتے ہیں جن پر ذوق کے فیصلوں کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اول تو یہ نتیجہ ہی سرے سے مہمل ہے لیکن اگر اسے درست مان لیا جائے تو یا تو یہ کہنا پڑےگا کہ ایسا ذوق انتہائی نامعتبر ہے جو مختلف قسم کے اشعار کے ایک بڑے گروہ کو اپنی گرفت سے آزاد کر دیتا ہے یا پھر یہ کہ آج جس صاحب ذوق قاری کے حوالے سے آپ جدید شاعری کو سب وشتم کا نشانہ بنا رہے ہیں وہ چونکہ پرانے اشعار کے ایک بڑے گروہ کے بارے میں غلط ہے، لہٰذا نئے اشعار کے بھی ایک بڑے گروہ کے بارے میں غلط ہو سکتا ہے۔ دونوں میں بنیادی بات یہی رہتی ہے کہ صاحب ذوق قاری ایک فرضی یا غیرقطعی اور غیرتنقیدی تصور ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ قدیم سرمائے کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جن میں فرقۂ اول کے مضامین استعمال ہوئے ہیں اور وہ اشعار نہایت لچر ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فرقۂ اول کے مضامین کو ناپسند یا مسترد کرکے ذوق نے غلطی نہیں کی ہے۔ جواب میں کہا جا سکتا ہے قدیم سرمائے میں بہت سے اشعار ایسے بھی ہیں جن میں فرقۂ دوم کے مضامین استعمال ہوئے ہیں اور وہ اشعار بھی نہایت لچر ہیں تو پھر ثابت کیا ہوتا ہے؟
ثابت تو دراصل یہ ہوتاہے کہ شعر کی خوبی یا خرابی اس کے مضمون پر نہیں بلکہ بعض اور ہی چیزوں پر منحصر ہوتی ہے اور ذوق نے جن مضامین کو برادری باہر کیا ہے انھیں ادبی دلائل کی روشنی میں خراب نہیں ثابت کیا جا سکتا، مثلاً معشوق کی ظلم کوشی، اسی کی تلوار، بندوق، خنجر، دشنہ، دریائے خوں، عاشق کی سخت جانی وغیرہ کو آپ اس لیے مطعون کرنے لگے کہ ان مضامین سے عشق یا معشوق کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ ان مضامین میں وہ متانت، سنجیدگی، سادگی اور اصلیت نہیں ہے جس کا ہم شاعری سے تقاضا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سادگی، سنجیدگی یا اصلیت وغیرہ تقاضے شاعرانہ یا تنقیدی تقاضے نہیں ہیں۔ یہ ایسی اصطلاحیں نہیں ہیں جن کا شاعری یا شعروں پر اطلاق ہو سکے۔ مثلا غالب کا شعر،
بہار حیرت نظارہ سخت جانی ہے
حنائے پائے اجل خون کشتگاں تجھ سے
اگرچہ معشوق کی خوں ریزی، عاشق کی سخت جانی وغیرہ کے بارے میں ہے لیکن یہ نہ غیرسنجیدہ ہے اور نہ سنجیدہ، محض شعر ہے۔ اس کو پڑھ کر نہ ہنسی آتی ہے نہ رونا آتا ہے۔ دوسری شکل یہ ہے کہ جب عشق یا عاشق یا معشوق کی توہین کے مضامین پر مبنی سیکڑوں قدیم اشعار کو آپ قبول کر سکتے ہیں تو آج کیا خرابی پیدا ہو گئی ہے، سوائے اس کے کہ آپ کے سماجی معیار بدل گئے ہیں، اس لیے آپ نے ان مضامین کو مسترد کر دیا ہے ورنہ ادبی معیار سے ان مضامین میں اب بھی وہی خوبیاں یا خرابیاں ہیں جو پہلے تھیں۔
یہ درست ہے کہ قدیم صاحب ذوق لوگوں (مثلاً غالب یا میر) کو ہم جس قسم کے اشعار پسند کرتے دیکھتے ہیں ان میں سے اکثر کو ہم (یعنی نقاد) ناپسند یا پسندیدہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اس کی وجہیں تنقیدی ہوں گی۔ نہ یہ کہ چونکہ رشک کے مضامین کو اب صاحب ذوق لوگوں نے ترک کر دیا ہے لہٰذا ہم بھی ان اشعار کو ناپسندیدہ کہنے پر مجبور ہیں جن میں رشک کا مضمون برتا گیا ہے۔ صاحب ذوق قاری محض ایک افسانوی یا ذاتی حقیقت ہے۔ اس میں کوئی معروضی حیثیت نہیں۔ یہ ثابت کرنے کے لیے اب زیادہ بحث کی ضرورت شاید نہیں رہ گئی لیکن ایک آدھ باتیں اور بھی اس سلسلہ میں غور طلب ہیں۔
میں یہ نہ کہوں گا کہ صاحب ذوق چاہے کتنا ہی سلیم الطبع کیوں نہ ہو، مرور ایام کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ زمانے کا فیشن بدلے یا نہ بدلے لیکن کوئی بھی شخص اسی ایک جگہ نہیں رکا رہ سکتا جہاں وہ پہلے تھا۔ نوعمری میں پسند کچھ اور ہوتی ہے، نوجوانی میں کچھ اور۔ اس طرح روز بہ روز حاصل ہونے والے تجربے، علم اور فکری صلاحیتوں کے ارتقا یا زوال کے ساتھ ساتھ ذوق بھی بدلتا رہتا ہے۔ ہم میں سے کم ایسے ہوں گے جنھوں نے اختر شیرانی یا مجاز کی نظموں پر اپنی نوعمری کے دنوں میں سر نہ دھنا ہو اور آج وہ ان نظموں کی تحسین کرتے شرماتے نہ ہوں۔ اگر وقت کے ساتھ ساتھ ذہنی رسپانس بدلتا رہتا ہے تو پھر ذوق سلیم کی وقعت کیا رہ جاتی ہے؟ کچھ بھی نہیں سوائے اس کے کہ کسی بھی مقررہ وقت یازمانے میں جو ذوق اور پسند میری ہے، میں اسی کو اپنے مفروضہ صاحب ذوق قاری کے سر تھوپ دیتا ہوں۔
لیکن جو دلیل میں پیش کرنا چاہتا ہوں وہ یہ نہیں ہے۔ ممکن ہے آپ کہہ دیں کہ اغلب نہ سہی ممکن تو ہے کہ صاحب ذوق قاری کا ذوق ایک غیر تغیر پذیر حقیقت ہو، ممکن ہے کہ آپ کہہ دیں کہ اغلب نہ سہی ممکن تو ہے کہ عینی ذوق سلیم کا مالک، زمانے کے تغیرات، علم و مطالعہ و تجربہ میں اضافے اور عمر گزرنے کے باوجود نہ بدلے، لہٰذا میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ذوق یا مذاق سلیم کو معیار بناکر آپ اچھے برے کی تمیز کر ہی نہیں سکتے۔ یعنی۔ نظری Theoretical سطح پر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ کسی بھی شخص یا اشخاص کے کسی بھی گروہ کے مذاق سلیم کو اپنا حوالہ بناکر شعری حسن وقبح کے معیار مقرر کر سکیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ذوق یا مذاق عام یا فیشن یا رسم ورواج چاہے کتنے ہی بدل جائیں، یہاں تک کہ یہ بھی ممکن ہے کہ وقتی ضرورتوں کے پیش نظر کچھ لوگ، بہت سے لوگ یا سب لوگ شعری حسن کے معیاروں میں بھی کچھ رد وبدل کرنے کی سعی کر ڈالیں، لیکن تجریدی Abstract اور نظری سطح پر شعری حسن کے معیار اگر بالکل نہیں تو تقریباً غیر تغیر پذیر ہوتے ہیں یعنی غیر تغیر پذیری کی جس قدر کا تاج آپ مذاق سلیم یا ذوق کے سر پر رکھ رہے تھے، دراصل شعری حسن کے نظری معیاروں کے سر پہلے ہی رکھا ہوا ہے، مثلاً ان اشعار پر غور کیجئے،
اپنی شکار گاہ جہاں میں ہے آرزو
ہم سامنے ہوں اور تمہاری رفل چلے
آتش
عاشق کو جب دکھائی فرنگی پسر نے توپ
پایا نہ کچھ وہ کہنے کہ بس فیر ہو گئی
بہادر شاہ ظفر
ظاہر ہے کہ مشاعرے یا کسی بھی سنجیدہ محفل میں یہ اشعار سناتے وقت آتش یا ظفر کو شرم تو نہ آئی ہوگی۔ ممکن ہے لوگ خوش دلی سے ہنس پڑے ہوں لیکن تمسخر یا ٹھٹھے کا کوئی مقام نہیں تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ آتش اور ظفر کے ہم عصر اگر ان دو صاحبان کو قابل ذکر شاعر سمجھتے ہوں گے تو ان یا ان جیسے دوسرے اشعار کے بل بوتے پر تو نہ سمجھتے ہوں گے۔ پھر بھی صاحب ذوق شاعروں اور سننے والوں نے ان اشعار کو قبول تو کیا ہی۔ ورنہ یہ ان کے دیوان میں کیوں ہوتے؟ لسانی اصول کا سہارا لیجیے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ صاحب یہ اشعار تو زبان کا انتہائی ترقی پسندانہ استعمال کر رہے ہیں، کیونکہ انگریزی کے الفاظ Rifle اور Fire کو جو کچھ ہی دن پہلے ان صاحبان کے ماحول میں داخل ہوئے ہوں گے، ان اشعار میں براجمان ہیں لیکن ان سب باتوں کے باوجود دونوں شعر انتہائی پست اور لچر ہیں۔ ان کی پستی کی وجہ جاننے کے لیے ہم عصر صاحبان ذوق کی دہائی دینا فضول ہوگا۔ وجہ ظاہر ہے۔ صاحب ذوق قاری (اگر ایسی کوئی چیز ہے) شعر کی خوبی یا خرابی نہیں متعین کرتا۔
پچھلے کئی صفحوں کی بحث میں بافہم اور پڑھے لکھے قاری کا ذکر میں نے نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ذوق اور فہم کا جو فرق میں نے شروع میں بیان کیا تھا، اب اسے نظرانداز کر گیا ہوں۔ میں نے مضمون کے شروع میں کہا تھا کہ کسی ایسے قاری کا وجود نہیں ہے، جس کی شعرفہمی پر ہم سب کو ہمیشہ اعتماد ہو۔ بعد میں، میں نے یہ بھی کہا تھا کہ جس طرح کسی فن پارے کا ہو بہ بہو مماثل صرف وہی فن پارہ ہو سکتا ہے، اسی طرح کسی فن پارے کا مثالی قاری صرف شاعر ہی ہو سکتا ہے۔ اس کی تھوڑی بہت تفصیل میں نے بیان کی تھی۔ اب کچھ ہی باتیں اور کہوں گا۔ سب سے پہلے تو یہ سوچنا ہے کہ پڑھے لکھے قاری سے کیا مراد ہے؟ جیساکہ میں نے باذوق اور صاحب فہم قاری کے خصائص بتاتے وقت کہا تھا، پڑھا لکھا ہونا با ذوق اور صاحب فہم قاری کے درمیان قدر مشترک ہے، اس لیے یہ شرط بقیہ شرائط کے مقابلہ میں کہیں زیادہ اہم ہے۔
ظاہر ہے کہ ہم کالج یا یونیورسٹی کی ڈگری کو پڑھا لکھا ہونے کا معیار نہیں قرار دے سکتے۔ اس کی دو وجہیں ہیں، اول تو یہ کہ کالج یا یونیورسٹی کی ڈگری بہت کم لوگوں کے پاس ہے اور شعر پڑھنے والے بہت زیادہ ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ ڈگری یافتہ شخص کو شعر کے مطالعہ سے کوئی دلچسپی نہ ہو لیکن غیر ڈگری یافتہ کو ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ڈگری یافتہ شخص ڈگری کے باوجود کورا ہو اور غیر ڈگری یافتہ شخص ادب کے بارے میں بہت جانتا ہو۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر ڈگری کو پڑھا لکھا یعنی صاحب فہم ہونے کا معیار ٹھہرایا جائےگا تو یہ بھی سوال اٹھےگا کہ کون سی ڈگری؟ بی اے، ایم اے، پی ایچ ڈی، ڈی لٹ، ڈبل ایم اے، ڈبل پی ایچ ڈی وغیرہ سیکڑوں ڈگریاں ہیں۔ ممکن ہے کوئی شخص کسی ڈگری کو کم سمجھے، کسی کو ناقابل اعتنا سمجھے، پھر یہ بھی سوال اٹھ سکتا ہے کہ ڈویژن کون سا ہو۔ فرسٹ، سکنڈ، تھرڈ۔ اگر ڈویژن طے بھی کرلیا تو لامحالہ زیادہ نمبر والا زیادہ پڑھا لکھا شخص ٹھہرےگا۔ تب دوسرا شخص کہہ سکتا ہے کہ صاحب فلاں کی ڈگری تو فلاں یونیورسٹی کی عطا کردہ ہے۔ وہ یونیورسٹی نہایت معمولی ہے وغیرہ۔ اس طرح ڈگری کے معیار پر پڑھا لکھا ہونے کا قضیہ نہیں طے ہو سکتا۔
اچھا اگر ڈگری کی بنیاد پر پڑھے لکھے شخص کی حد بندی نہیں ہو سکتی تو مطالعہ کی بنیاد پر تو ہو سکتی ہوگی؟ پرانے عرب عالموں کا خیال تھا کہ جس شخص کو اساتذہ کے دس ہزار شعر یاد نہ ہوں وہ خود شاعر ہونے کا اہل نہیں ہے تو کیا حافظے کی قوت کو فہم کا معیار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں اور اگر ٹھہرا بھی دیں تو کس بورڈ کا فیصلہ اس سلسلہ میں قابل قبول ہوگا؟ وہ لوگ جو پڑھے لوگوں کے حوالے سے کسی شاعر کو لعن طعن کرتے ہیں کیا کسی ایسے بورڈ کے ممبر ہیں جس نے دس دس ہزار شعر زبانی سن کر کچھ لوگوں کو پڑھا لکھا ہونے کا خطاب عطا کیا ہے؟ اور کیا یہ ضروری ہے کہ جس شخص کو دس یا پانچ ہزار شعر یاد ہوں، اس کا مطالعہ بھی نہایت صحیح اور معتبر ہو؟ ممکن ہے اس نے دیوان غالب سے وہی شعر یاد کیے ہوں جو سب سے لغو ہیں۔ آپ کہیں گے حافظہ اور مطالعہ ہم معنی نہیں کہے جا سکتے۔ اس لیے آئیے مطالعہ کی تعریف دوبارہ متعین کریں۔
فرض کیجئے ہم قاریوں کو تین گروہوں میں بانٹ دیں۔ (۱) واجبی پڑھے لکھے، (۲) اوسط پڑھے لکھے، (۳) پڑھے لکھے۔ آپ کہیں گے، ظاہر ہے کہ ایسے تو ہوتے ہی ہوں گے جو ان میں سے کسی گروہ میں فٹ ہو سکیں۔ لیکن وہ کس طرح کے لوگ ہوتے ہوں گے؟ فرض کیجئے ہم نے کہا وہ شخص واجبی پڑھا لکھا ہے جس نے اسماعیل میرٹھی، حامد اللہ افسر، درگا سہائے سرور اور شاکر میرٹھی سے زیادہ کچھ نہیں پڑھا۔ تو کیا واقعی ایسے شخص کا وجود عملاً ممکن ہے جس نے داغ، امیر مینائی، نظیر، مصحفی، انشا وغیرہ کا کوئی شعر نہ پڑھا ہو؟ اور کیا وہ شخص بھی واجبی پڑھا لکھا کہلائے گا جس نے اسماعیل میرٹھی اور درگا سہائے سرور کا سارا کلام بہ غور پڑھا ہو؟ اسی طرح اوسط پڑھے لکھے سے ہم کیا مراد لیں گے؟ شاید یہ کہ وہ غالب اور مومن کے پیچیدہ اشعار، ذوق اور سودا کے قصائد نہ سمجھ سکتا ہوگا، لیکن ان کے بقیہ اشعار اس نے پڑھے ہوں گے اور سمجھے بھی ہوں گے؟
پھر اس شخص کو کیا کہیں گے جس نے منیر شکوہ آبادی، ضامن علی جلال، مظفر علی اسیر، راسخ عظیم آبادی، قائم چاندی پوری وغیرہ کو خوب پڑھا ہو۔ لیکن اقبال، جوش، فیض وغیرہ کو نہ پڑھا ہو؟ کیا وہ شخص جس نے مسدس حالی تو نہیں پڑھی ہے لیکن میر انیس کے مرثیے پڑھے ہیں، جس نے نظیر اکبر آبادی کو پڑھا ہے لیکن مومن کو نہیں پڑھا ہے، جگر سے واقف ہے لیکن فانی کو نہیں جانتا، اوسط پڑھا لکھا کہلائےگا، ظاہر ہے کہ نہیں؟ اسی طرح پڑھا لکھا شخص کون ہوگا؟ جس نے اقبال، غالب، سودا، میر، انیس، فیض درد وغیرہ سب کو خوب پڑھا ہو؟ لیکن اس نے یگانہ کو نہ پڑھا ہو؟ فراق کو نہ پڑھا ہو؟ دیا شکر نسیم کو نہ پڑھا ہو؟ آپ کہیں گے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی شخص نے اقبال، غالب، درد، سودا، میر، انیس کو پڑھا ہو لیکن آخر الذکر شعرا کو نہ پڑھا ہو تو بات پھر امکان پر آ گئی، یعنی آپ نے بعض چیزوں کو ممکن یقین کر لیا اور بعض کو ناممکن گردانا، لیکن فیصلہ کیا ہوا؟
پڑھے لکھے آدمی کا جو معیار آپ مقرر کر رہے ہیں، یا تو وہ اتنا بلند اور وسیع ہے کہ اس پر کوئی پورا نہیں اتر سکتا (شاید ایک دو پروفیسر صاحبان اتریں تو اتریں) یا پھر اتنا غیرقطعی کہ اس کی حد بندی ہی نہیں ہو سکتی۔ کیا آپ کسی ایسے شخص کا تصور کر سکتے ہیں جو جگر پر ناک بھوں چڑھاتا ہے۔ یگانہ سے واقف نہ ہو، غالب کے صرف ایک ہی دو شعر اسے یاد ہوں، اسماعیل میرٹھی اور شاکر میرٹھی کا ماہر ہو، مشاعرے کے شاعروں کو جانتا ہوں لیکن سب کو پسند نہ کرتا ہو۔ ایسا شخص یقیناً ایک طرح کا واجبی پڑھا لکھا شخص ہوگا لیکن اس کا وجود ہوا میں ہو تو ہو زمین پر نہیں رہ سکتا۔
میرا مطلب یہ ہے کہ پڑھا لکھا ہونے کا معیار مقرر کرنے میں دو قباحتیں ہیں۔ اول تو یہ کہ اس معیار پر لوگوں کو کسنے اور پرکھنے کے وسائل ہمارے پاس نہیں ہیں۔ اگر ہم مطالعہ کی مفصل ترین فہرست بنا بھی دیں تو اس فہرست کی روشنی میں لوگوں کو جانچ نہیں سکتے، لہٰذا ہمارا معیار فرضی اور تصوراتی ہی رہےگا۔ دوسری اور اتنی ہی بڑی قباحت یہ ہے کہ ایسا معیار وضع کرنا ہی نہیں ہے جس کی رو سے ہم کسی شخص کو پڑھا لکھا یا جاہل کہہ سکیں، تو جب پڑھا لکھا ہونے کا معیار وضع ہی نہیں ہو سکتا یا اگر وضع بھی ہو سکتا ہے تو اس کا اطلاق اور اس کی روشنی میں لوگوں کا امتحان نہیں ہو سکتا تو پھر اس دعویٰ کا کیا مطلب ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کی نظر میں فلاں قسم کی شاعری ناقابل قبول، ناقابل فہم یا غیرمستحسن ہے؟ لوگوں کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ صاحب شاعری کم سے کم ایسی ہو کہ پڑھے لکھے لوگ اسے سمجھ سکیں۔ کیا مصیبت ہے کہ پڑھے لکھے لوگ، صاحب فہم لوگ بھی ایسی شاعری کے سامنے سپر ڈال دیتے ہیں؟ اگر پڑھا لکھا قاری بھی اتنا ہی بڑا افسانہ ہے جتنا صاحب ذوق قاری، تو پھر ان باتوں کی اصل کیا ہے؟
ظاہر ہے کہ ان کی بھی اصل وہی ہے جو صاحب ذوق قاری کی ہے۔ یعنی جس طرح ہم لوگ اپنے ذوق کی روشنی صاحب ذوق قاری کا افسانہ گڑھتے ہیں، اسی طرح اپنے مطالعے اور فہم کی روشنی میں پڑھے لکھے اور صاحب فہم قاری کا مفروضہ دریافت کرتے ہیں۔ جو نظمیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں، ہم ان کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ پڑھے لکھے اور صاحب فہم لوگ بھی انھیں سمجھ نہیں پاتے۔ اسی وجہ سے ہمارے محولہ بالا نقاد کو صرف افتخار جالب اور احمد ہمیش کے بارے میں صاحب فہم اور پڑھے لکھے قاری کے حوالہ سے کہنا پڑا کہ یہ نظمیں صاحب فہم قاری کی دست رس سے باہر ہیں۔ اسی مفروضہ کو دوسری طرح یوں بیان کیا جاتا ہے کہ صاحب جب ہم میروغالب، انیس و اقبال کو سمجھ لیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ فلاں صاحب کی نظمیں نہیں سمجھ سکتے؟
اس استفہام کی ایک شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ واجبی پڑھا لکھا شخص جس نے صرف حامد اللہ افسر کا کلام پڑھا ہو، یہ پوچھے کہ صاحب جب میں حامد اللہ افسر کو پوری طرح سمجھ لیتا ہوں تو فلاں مثلاً داغ کا کلام میری سمجھ میں کیوں نہیں آتا؟ دونوں صورتوں میں غلط فہمی ایک ہی طرح کی ہے۔ جس چیز (یعنی فہم شعر) کو ہم نے ایک شاعر کے تعلق سے مشق ومزاولت کے ذریعہ حاصل کیا ہے، ہم دوسرے شاعر کے تعلق سے خود بہ خود نہیں حاصل کر سکتے۔ افسر میرٹھی کے کلام پر ہم نے تھوڑی بہت مشق کی تو ہمیں اس کی فہم حاصل ہوئی۔ داغ ہو یا عادل منصوری، ان کے کلام کے ساتھ بھی اسی طرح مشق کرنی پڑےگی تو ان کی فہم بھی حاصل ہوگی۔ دوسری صورت میں ہم ہمیشہ اپنے معیار کو غیرشعوری طور پر سامنے رکھ کر ایک فرضی تصور کے حوالے سے کسی مخصوص شاعر یا مخصوص طرح کی شاعری کو مطعون کرتے رہیں گے۔
شعر کی سمجھ کا معاملہ دراصل اتنا سادہ نہیں جتنا بہ ظاہر دکھائی دیتا ہے۔ سب سے پہلا مرحلہ تو وہی ہے جس کی طرف میں شروع میں اشارہ کر چکا ہوں۔ یعنی یہ کہ ہم اکثر اپنے ذوق یا پسند کی بنا پر کسی نظم یا شعر سے لطف اندوز ہوتے ہیں، لیکن اس کے مطالب ہم پر پوری طرح واضح نہیں ہوئے ہوتے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مطالب پوری طرح کبھی واضح نہ ہوں۔ پوری طرح تو بڑی بات ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ کسی نظم یا شعر کے مطالب اطمینان بخش طریقے سے بھی ہم پر واضح نہ ہوں لیکن پھر بھی نظم یا شعر کی مجموعی کیفیت ہمارے لیے معنی خیز ہو۔ میں ان بحثوں میں اس وقت نہ جاؤں گا بلکہ سادہ سی بات کہوں گا کہ شعرفہمی کے دو پہلو ممکن ہیں،
(۱) اولاً یہ کہ ہم نظم یا شعر کے اندر پنہاں و پیدا تمام مطالب سمجھ لیں۔
(۲) ثانیاً یہ کہ ہم نظم یا شعر کے ذریعہ ان تمام کیفیات اور معانی اور تجربات سے آگاہ ہو جائیں جو اس کی تخلیق کے وقت شاعر کے ذہن میں تھے یا جن کو شاعر نے بہ خیال خود نظم یا شعر میں رکھاہے۔
پہلی شکل تو بالکل ظاہر ہے کہ ناممکن ہے۔ اس کی کئی وجہیں ہیں۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کا ذہن ان ممکنہ مطالب کا حاطہ نہیں کر سکتا جو کسی شعر یا نظم میں بند ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مختلف اشعار کی مختلف شرحیں وقتاً فوقتاً ہوتی رہی ہیں اور آئندہ ہوتی رہیں گی۔ بعد میں آنے والے شارح کا مطالعہ اور ذہنی رجحان پچھلے ادوار کا مجموعہ، تجربہ اور علم خود اس شاعر کے کلام پر مختلف تنقیدیں، یہ سب مل کر اس شاعرکے کلام پر نئی روشنی ڈالتے رہتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ہر شخص ہر شعر کو مختلف زمانوں اور صورت حال میں مختلف طرح دیکھتا ہے۔ شعر کے لفظی معنی نہ بدلیں لیکن پڑھنے والے کی صورت حال کے اعتبار سے اس کی معنویت یعنی Signification بدلتی جاتی ہے۔ یہ صورت اس وقت بھی موجود رہتی ہے جب شعر کے الفاظ خاصی حد تک واضح ہوں۔ (خاصی حد تک میں نے اس لیے کہا کہ شعر کے الفاظ مکمل طورپر واضح ہو ہی نہیں سکتے) مثلاً یہ نہایت سادہ شعر دیکھیے،
آج میں نے ان کے گھر بھیجا کئی بار آدمی
جب سنا تو یہ سنا بیٹھے ہیں دو چار آدمی
اکبر الہ آبادی
لفظی معنی کے بارے میں کسی قسم کا شبہ شاید کبھی نہیں ہو سکتا لیکن اس کی معنویت کے چند پہلو حسب ذیل ہیں،
(۱) یہ شعر اردو شاعری کے روایتی معشوق کے بارے میں ہے جس کے سیکڑوں چاہنے والے ہیں۔ شاعر بھی ان میں سے ایک ہے لیکن اس کو باریابی حاصل نہیں ہے۔
(۲) یہ شعر ہمارے آپ کے زمانے کے افسر کے بارے میں ہے جس کو صاحب غرض ہر وقت گھیرے رہتے ہیں۔
(۳) یہ شعر کسی بھی صاحب ثروت آدمی کے بارے میں ہے۔
(۴) یہ شعر لیڈر یا منسٹر قسم کے کسی شخص کے بارے میں ہے۔
(۵) یہ شعر کسی دوست کے بارے میں طنزیہ کہا گیا ہے۔
(۶) یہ شعر کسی ہم پیشہ کے جذبۂ رقابت کا اظہار ہے۔ متکلم (مثلاً) ڈاکٹر ہے لیکن اس کی پریکٹس نہیں چلتی۔ ’’ان‘‘ سے مراد کوئی بزنس Rival ہے۔
(۷) لفظ ’’آج‘‘ پر زور دیجئے تو یہ شعر صرف ایک مخصوص دن کی صورت حال کا نقشہ پیش کرتا ہے۔
مندرجہ بالا معنویتوں میں سے کوئی ایک یا ایک سے زیادہ مختلف لوگوں کے لیے مختلف صورت حال میں درست ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اور بھی معنویتیں ہوں جن پر میری نظر نہ گئی ہو۔ یہ حال تو اس شعر کا ہے جس کے لفظی معنی میں کسی قسم کے اختلاف یا تغیر کا امکان بہت ہی کم ہے اور جس میں شعر پن بہت کم درجے میں ہے۔ لیکن ممکن ہے کہ آپ کہیں کہ فاروقی صاحب نے جان بوجھ کر ایسا شعر چھانٹا ہے جس میں ظاہری غیرپیچیدگی کے باوجود اتنے طرح کے مطالب نکل سکیں، لہٰذا ایک اور شعر لیجئے۔ اس کے بھی معنی میں اختلاف رائے کی گنجائش بہت کم ہے،
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
آتش
ٹھیک ہے، استعاروں کے بارے میں کوئی بحث نہ ہوگی۔ اگر وہ بھی ہو تو کئی معنی نکل سکتے ہیں، لیکن میں صرف Signification سے بحث کروں گا، جو بہرحال معنی سے کم تر درجے کی چیز ہے۔
(۱) یہ شعر بھی لوگوں یا ان لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے (یا ان کے رویے کی ترجمانی کرتا ہے) جو جیب میں چند روپے ڈال کر دنیا کی سیر کو نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
(۲) یہ شعر Adventure کی ترغیب دیتا ہے۔
(۳) یہ شعر انسان کی بنیادی بھل منساہٹ اور مہمان نوازی کی تعریف کرتا ہے۔
(۴) یہ شعر انسانوں کے حالات پر اعتماد کرنا سکھاتا ہے، یعنی یہ کہتا ہے کہ اجنبی راہوں سے مت گھبراؤ۔ لوگوں پر اعتماد رکھو۔
(۵) یہ شعر ایک ایسے ملک کے بارے میں ہے جہاں کے بادشاہ (مثلاً) شیر شاہ نے لمبی لمبی سڑکوں پر دو رویہ درخت لگوا رکھے ہیں۔
(۶) یہ شعر پیغام عمل دیتا ہے وغیرہ۔
ان مثالوں کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کوئی ایسی صورت ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص ایک وقت میں کسی شعر کے سارے مطالب یعنی معنی Meaning اور معنویت Signification کو سمجھ لے۔ لیکن معاملہ یہیں تک نہیں رہتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی چیز کے بارے میں ہمارا علم مکمل نہیں ہو سکتا۔ اس مسئلہ کو رسل نے بڑی خوبی سے واضح کیا ہے۔ اس نے تو یہاں تک کہا ہے کہ (مثلاً) غالب کے بارے میں پورا علم صرف غالب ہی کے لیے ممکن تھا۔ اس کو دو طرح سے سمجھا جا سکتاہے۔ اول تو یہ کہ کسی شے کا عینی Ideal علم دراصل وہ علم ہے جو اس شے کے بارے میں تمام لوگوں کے علم کا مجموعہ ہے۔
مثلاً میں اور آپ ایک سرخ گیند دیکھتے ہیں۔ اب اس کی دو شکلیں ہیں۔ یا تو ہم کو ایک سرخ احساس ہوتا ہے یا ہم سرخی کا احساس کرتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں ہمارا علم ہمارے ہی حواس کی فراہم کردہ اطلاع Sense Data پر منحصر ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ کے Sense Data کا علم مجھ کو نہیں ہے اور میرے حواسی اطلاعات Sense Data کا علم آپ کو نہیں ہے۔ اس طرح سرخ گیند کی سرخی یا میرے سرخ احساس کے بارے میں میرا علم صرف میرے ہی Data تک محدود ہے۔ اگر اسی گیند کو لاکھوں آدمیوں نے دیکھا تو ان کے لاکھوں Sense Data ہوں گے۔ یہ اطلاعات ایک دوسرے سے مشابہ تو ہو سکتے ہیں لیکن بالکل ہو بہ ہو ایک نہیں ہو سکتے، کیونکہ سب لوگ الگ الگ شخصیتوں، صلاحیتوں اور قوتوں کے مالک ہیں۔
اس طرح کسی شے یا کسی مقدمے proposition کو پوری طرح جاننے کا مفہوم صرف یہ ہے کہ میں اس شے کو اپنے علم کی روشنی میں جانتاہوں اور ظاہر ہے کہ یہ علم چونکہ صرف میرا ہے اس لیے محدود ہے۔ ’’شجر سایہ دار‘‘ ایک شے ہے اور ’’ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے‘‘ ایک مقدمہ Proposition۔ ان کا عمومی مفہوم ہم سب کے پاس ہے، لیکن ان کا مکمل مفہوم کسی کے پاس نہیں ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ’’شجر سایہ دار‘‘ مفہوم رکھتا ہو لیکن کسی کے لیے حقیقی نہ ہو اور کسی کے لیے بالکل حقیقی ہو یا جزوی طور پر حقیقی ہو۔ دوسری طرف یہ مسئلہ ہے کہ مثلاً میں نے کہا، ’’غالب ایک اچھا شاعر ہے۔‘‘ اس مقدمہ میں اچھا اور شاعر کا تجزیہ فی الحال ملتوی کرکے لفظ غالب پر توجہ صرف کیجئے۔ سب سے پہلے تو یہ تسلیم کرنا پڑےگا کہ کوئی شخص غالب نام کا ہے جس پر ’’اچھا شاعر‘‘ کی تعریف منطبق ہو سکتی ہے۔
ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ یہ تعریف صرف اور صرف اس غالب پر منطبق ہو رہی ہے جس کا پورا نام اسد اللہ خاں تھا، جو بلی ماروں میں رہتا تھا اور جو ۱۸۶۹ء میں فوت ہوا۔ لیکن اس کے بعد معاملہ مشکل ہو جاتا ہے جب میں نے کہا کہ ’’غالب ایک اچھا شاعر ہے۔‘‘ تو ممکن ہے میرے ذہن میں غالب کی وہ غزل رہی ہو جس کا مطلع ہے ’’ظلمت کدہ میں میرے شب غم کا جوش ہے۔‘‘ اور آپ نے جب میرے بیان کی تصدیق کی تو آپ کے خیال میں غالب کا وہ قصیدہ آیا ہو جس کا مطلع ہے ’’دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں۔‘‘ دونوں غالب ایک ہی ہیں لیکن آپ کے ذہن میں غالب کی جو تعریف ہے وہ میری تعریف سے مختلف ہے۔ یہ اختلاف اگر سیکڑوں آدمیوں پر پھیلایا جائے تو مسئلہ کی وسعت صاف نظر آنے لگتی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ جب میں نے کہا کہ غالب ایک اچھا شاعر ہے، میرے ذہن میں غالب کا ہر قصیدہ، ہرغزل، ہر رباعی رہی ہو اور آپ نے جب تصدیق کی ہو تو آپ کا بھی یہی حال ہو۔
ہم لوگ ایک دوسرے کی بات اس لیے سمجھ لیتے ہیں کہ ہم لوگوں کے Sense Data ایک دوسرے کے مشابہ ہو سکتے ہیں، یا ہمیں علم رہتا ہے کہ ہر شے کے بارے میں ایک بالکل صحیح مقدمہ بھی موجود ہے جو پوری حقیقت کو محیط ہے اور ہمارے مقدمات اس صحیح مقدمہ کا ایک حصہ ہیں۔ رسل کہتا ہے، ’’مختلف قسم کے Descriptions (بیان+روداد) کے باوجود جو چیز ایک دوسرے کی بات سمجھنا ہمارے لیے ممکن بناتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ اصل شے کے بارے میں ایک سچا مقدمہ ہے اور ہم اپنے بیان + روداد کو کتنا ہی مختلف کیوں نہ کر دیں (بشرطیکہ وہ بیان + روداد درست ہو) جس مقدمے کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ ایک ہی ہے۔‘‘
اس موشگافی کا نتیجہ یہ نکلاکہ عینی حیثیت سے کسی چیز کا مکمل علم حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہاں اگر آپ حواسی اطلاعات Sense Data کے بجائے وجدانی علم وغیرہ کا حوالہ دیں تو اور بات ہے لیکن شعرفہمی کی دنیا میں وجدانی علم نہیں کام آتا۔ یہاں تو شجر سایہ دار اور مسافر نواز اور راہ کی تفسیر اس طرح کرنی ہوگی کہ شعر ہمارے لیے بامعنی ہو سکے۔ وٹ گنسٹائن نے اس سلسلہ میں ایک اچھا نکتہ نکالا تھا کہ اگرچہ زیادہ تر الفاظ کی قطعی تعریف یعنی ایسی تعریف جو خود کفیل ہو، ممکن نہیں ہے۔ لیکن دوسرے الفاظ کے ذریعہ ان کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ تفہیم شعر بھی یہی کرتی ہے۔ اپنی حدوں کے باوجود ہم سب اپنی اپنی توفیق بھر اشعار کو سمجھتے اور سمجھاتے ہیں، رسل کا سچا مقدمہ True Proposition ہمارے کام آتا ہے لیکن کوئی بھی تفہیم کسی شعر کی مکمل ترین تفہیم نہیں ہو سکتی۔
شعرفہمی کی دوسری صورت یہ تھی کہ ہم نظم یا شعر کے ذریعہ ان تمام کیفیات اورمعانی اور تجربات سے آگاہ ہو جائیں جو اس کی تخلیق کے وقت شاعر کے ذہن میں تھے یا جن کو شاعر نے بہ خیال خود نظم یا شعر میں رکھاہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہم ان تمام موجود اور غیرموجود لوگوں کے نکالے ہوئے مطالب سے آگاہ نہیں ہو سکتے جو شعر کو پڑھ چکے ہیں، پڑھ رہے ہیں، یا پڑھیں گے، تو پھر مکمل شعرفہمی اس کو کہیں گے کہ کم سے کم شاعر کے عندیہ سے تو ہم آگاہ ہو جائیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی ناممکن ہے کیونکہ آپس میں گفتگو کرتے وقت ہم ایک دوسرے کے مقدمات کے تمام معانی کو نہیں سمجھ پاتے یا ان سے آگاہ ہی نہیں ہوتے تو شاعر کے تمام مقدمات کو کیا سمجھیں گے جو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں۔
شاعر تو اپنی کہہ چکا۔ اب ہم اسے کہاں ڈھونڈتے پھریں کہ تو نے جب ’’شجر سایہ دار‘‘ کہا تھا تو تیرے ذہن میں کس قسم کا Sense Data تھا۔ کیونکہ شجر سایہ دار کا مفہوم صرف یہی نہیں ہے کہ چھاؤں والا پیڑ، بلکہ اصل مفہوم (یعنی شاعر کے ذہن کا مفہوم) اس درخت یا ان درختوں کی تفصیل میں ہے جو یہ فقرہ بنانے یا نظم کرتے وقت شاعر کے ذہن میں تھی۔ سایہ دار درخت نیم بھی ہو سکتا ہے اور دیودار بھی۔ مختلف درختوں کے ساتھ مختلف انسلاکات ہوں گے۔ اگر شاعر کا عندیہ واقعی سمجھنا ہے تو ان کو سمجھیے۔ ممکن ہے اس بحث کو آپ بال کی کھال نکالنے کی مشق کہیں۔ ’’شجر سایہ دار‘‘ ایک پیکر ہے، اس لیے اس کی تفہیم میں اس قسم کے مباحث اٹھ سکتے ہیں۔ ایک ایسا شعر لیجئے جس میں کوئی پیکر نہیں ہے۔ اقبال کی نظم ’’حقیقت حسن‘‘ کا پہلا شعر ہے،
خدا سے حسن نے اک روز یوں سوال کیا
جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا
شعر کا ظاہری مفہوم سمجھنے میں کسی کو کوئی مشکل نہیں ہو سکتی، لیکن جب آپ شاعر کے عندیہ کی بات کریں گے تو ان سوالوں کا جواب ضروری ہو جائےگا۔
(۱) ’’ایک روز‘‘ کیوں ہے۔ ’’ایک رات‘‘ کیوں نہیں ہے؟
(۲) ’’یوں‘‘ کی جگہ ’’یہ‘‘ کیوں نہیں کہا؟
(۳) ’’جہاں‘‘ میں لازوال ہونے کی تمنا سے کیا مراد ہے۔ کیا جہاں یعنی دنیائے فانی کے علاوہ دوسری دنیا میں حسن پہلے ہی سے لازوال ہے، اگر ہاں تو دنیائے باقی میں ہر چیز لازوال ہے اور دنیائے فانی میں ہر چیز زوال پذیر ہے، حسن ہی کی تخصیص کیوں؟
(۴) یہ مصرع اس طرح کیوں نہ لکھا گیا، جہاں میں تو نے مجھے کیوں نہ لازوال کیا؟ یعنی تاکید بجائے ’’تو‘‘ کے ’’کیوں‘‘ کیوں نہیں ہے؟
بعض سوالات بہ ظاہر مضحکہ خیز ہیں۔ بعض کے جواب کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ شعر کا مطلب صاف ہے۔ لیکن جب تک ان سوالوں کے جواب نہ ملیں گے شاعر کے عندیہ (یعنی وہ کیفیات جو شعر کہتے وقت شاعر کے ذہن میں تھیں) کی وضاحت نہیں ہو سکتی۔ اگر اس شعر کو واقعی کوئی سمجھ سکتا ہے تو اقبال ہی سمجھ سکتے ہیں، لہٰذا یہ تصور کہ ہم شعر پڑھ کر ان تمام تجربات و کیفیات کی مکمل تخلیق کر سکتے ہیں، جن سے شاعر شعر کہتے وقت دوچار تھا، محض فرضی اور مہمل ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ ان کیفیات سے ملتی جلتی کیفیات حاصل کر لیں اور ان سے کما حقہ لطف اندوز ہو لیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان شعروں کا کیا بنے گا جن کی شرح شاعر نے خود کی ہے۔ اس کا جواب بالکل صاف ہے۔ اول تو شاعر کی شرح کوئی سند نہیں ہے۔ اس معنی میں کہ اگر اس شعر میں اور بھی معنی نکل سکتے ہیں تو ضرور نکالے جائیں گے۔ شاعر نے ان کا تذکرہ کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ شاعر نے اپنی شرح میں محض اپنا مدعا بیان کر دیا ہے۔ یہ تو بتایا نہیں ہے کہ وہ تمام کیفیات کیا تھیں جس کے نتیجہ میں یہ شعر ہوا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بتایا نہیں ہے کہ وہ تمام کیفیات کیا تھیں جس کے نتیجے میں یہ شعر ہوا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ شاعر یا کسی اور شارح کی بیان کردہ شرح پڑھ کر ممکنہ حد تک ہم پر بھی وہ محسوسات اور کیفیات طاری ہو جائیں، ورنہ شارح محض شارح ہے چاہے وہ خود شاعر کیوں نہ ہوں۔ اگر شعرفہمی کا معیار یہ ہے کہ ہم خود کو شاعر سے اتم واکمل درجے پر Identify کر لیں تو یہ معیار یا تو ناممکن ہے یا فرضی ہے۔
مضمون ختم کرنے کے پہلے میں چند باتوں کا اعادہ کرنا ضرور ی سمجھتا ہوں، (۱) میرا مدعا یہ ہرگز نہیں ہے کہ لوگ صاحب ذوق نہیں ہوتے۔ میرا مدعا صرف یہ ہے کہ ذوق کا ایک انفرادی اور ذاتی معیار ہے، اس کی کوئی معروضی حیثیت نہیں۔ جو لوگ صاجب ذوق قاری کے حوالے سے کسی شاعر کو مطعون کرتے ہیں وہ دراصل صرف اپنا حوالہ دیتے ہیں۔
(۲) میرا مدعا یہ بھی نہیں ہے کہ شعر کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ میری مدعا صرف یہ ہے کہ شعر میں ان معانی کے علاوہ جو زیادہ تر لوگوں میں مشترک ہوتے ہیں، بہت سے معنی اور بھی ہوتے ہیں اور کسی بھی شعر کو تمام وکمال سمجھنا (یعنی اس شعر کے تمام ممکنہ مطالب پر حاوی ہو جانا) کسی ایک شخص کے لیے ایک وقت میں ممکن نہیں ہے۔
(۳) میرا مدعا یہ بھی نہیں ہے کہ ہر وہ شعر جو سمجھ میں نہیں آتا اچھا ہی ہوتا ہے۔ میرا مدعا صرف یہ ہے کہ یہ کہنا کہ فلاں شعر یا نظم صاحب فہم قاری کی سمجھ میں نہیں آتی لہٰذا ایسی شاعری بے کار ہے، غلط ہے۔ کیوں کہ صاحب فہم قاری محض ایک فرضی تصور ہے۔ یہ ایک انفرادی معیار ہے، اس کی کوئی معروضی حیثیت نہیں۔ جو لوگ صاحب فہم قاری کا حوالہ دیتے ہیں، وہ دراصل صرف اپنا حوالہ دیتے ہیں۔