سحر نے آ کر مجھے سلایا تو میں نے جانا

سحر نے آ کر مجھے سلایا تو میں نے جانا
پھر ایک سپنا مجھے دکھایا تو میں نے جانا


بجز ہوا اب رکے گا کوئی نہ پاس میرے
اندھیری شب میں دیا بجھایا تو میں نے جانا


گیا یہ کہہ کر کہ ایک شب کی ہے بات ساری
مگر وہ جب لوٹ کر نہ آیا تو میں نے جانا


میں ایک تنکا رکا کھڑا تھا ندی کنارے
ندی نے بہنا مجھے سکھایا تو میں نے جانا


سیاہ بادل میں برق کوندی تو سب نے دیکھا
تری ہنسی نے مجھے رلایا تو میں نے جانا


میں اوڑھ کر خود کو سو گیا تھا کہ بے خطر تھا
کوئی پرندہ جو پھڑپھڑایا تو میں نے جانا


مرے ہی سینے میں سخت پتھر سی شے ہے کوئی
جو آج تو نے مجھے بتایا تو میں نے جانا


میں تیری نظروں سے گر چکا تھا مگر جو تو نے
مری نظر سے مجھے گرایا تو میں نے جانا


ہوا میں شامل تھی تشنگی اس کے تن بدن کی
ہوا نے میرا بدن جلایا تو میں نے جانا