صحافی سے
قوم کی بہتری کا چھوڑ خیال
فکر تعمیر ملک دل سے نکال
تیرا پرچم ہے تیرا دست سوال
بے ضمیری کا اور کیا ہو مآل
اب قلم سے ازار بند ہی ڈال
تنگ کر دے غریب پر یہ زمیں
خم ہی رکھ آستان زر پہ جبیں
عیب کا دور ہے ہنر کا نہیں
آج حسن کمال کو ہے زوال
اب قلم سے ازار بند ہی ڈال
کیوں یہاں صبح نو کی بات چلے
کیوں ستم کی سیاہ رات ڈھلے
سب برابر ہیں آسماں کے تلے
سب کو رجعت پسند کہہ کر ٹال
اب قلم سے ازار بند ہی ڈال
نام سے پیشتر لگا کے امیر
ہر مسلمان کو بنا کے فقیر
قصر و ایواں میں ہو قیام پذیر
اور خطبوں میں دے عمرؔ کی مثال
اب قلم سے ازار بند ہی ڈال
آمریت کی ہم نوائی میں
تیرا ہمسر نہیں خدائی میں
بادشاہوں کی رہنمائی میں
روز اسلام کا جلوس نکال
اب قلم سے ازار بند ہی ڈال
لاکھ ہونٹوں پہ دم ہمارا ہو
اور دل صبح کا ستارا ہو
سامنے موت کا نظارا ہو
لکھ یہی ٹھیک ہے مریض کا حال
اب قلم سے ازار بند ہی ڈال