سگ جمال ہوں گردن سے باندھ کر لے جا

سگ جمال ہوں گردن سے باندھ کر لے جا
جمال یار مجھے آج سیر پر لے جا


تیرے لبوں کا تبسم بھی تو رہا ہوں کبھی
بنا ہوں اشک تو پلکوں پہ ٹانک کر لے جا


سمیٹ کر مجھے رکھ لے کہ تیرا درد ہوں میں
ترا ہی عیب ہوں مجھ کو چھپا کے گھر لے جا


کھبا ہوا ہے ترا حسن میری آنکھوں میں
نکال کر مری آنکھوں سے نیشتر لے جا


میں سنگ دل ہوں تو اک روز خانۂ دل میں
لگے ہوئے ہیں جو پتھر اکھاڑ کر لے جا


بچھڑ رہا ہے تو اپنی نشانیاں بھی سمیٹ
اب اپنے ساتھ ہی یہ کوئے بام و در لے جا