سفر طویل سہی حاصل سفر کیا تھا

سفر طویل سہی حاصل سفر کیا تھا
ہمارے پاس بجز دولت نظر کیا تھا


لبوں سے یوں تو برستے تھے پیار کے نغمے
مگر نگاہوں میں یاروں کے نیشتر کیا تھا


یہ ظلمتوں کے پرستار کیا خبر ہوتے
مری نوا میں بجز مژدۂ سحر کیا تھا


ہر ایک ابر میں ہے اک لکیر چاندی کی
وگرنہ اپنی دعاؤں میں بھی اثر کیا تھا


ہزار خواب لٹے خواب دیکھنا نہ گیا
یہی تھا اپنا مقدر تو پھر مفر کیا تھا


غرور اندھیرے کا توڑا اسی سے ہار گیا
نمود ایک شرر کی تھی یا بشر کیا تھا


کوئی خلش جو مقدر تھی عمر بھر نہ گئی
علاج ایسے مریضوں کا چارہ گر کیا تھا