سفر میں تیرہ شبی کے عذاب اتنے ہیں
سفر میں تیرہ شبی کے عذاب اتنے ہیں
اسی لیے تو پریشان خواب اتنے ہیں
جدھر بھی دیکھیے دشت تحیرات سا ہے
جدھر بھی جائیے اب انقلاب اتنے ہیں
تمہارے ساتھ چلیں ہم نے بارہا سوچا
ہماری جان کو لیکن عذاب اتنے ہیں
قدم قدم پہ ہے امکاں فریب کا یارو
نظر نظر میں یہاں تو سراب اتنے ہیں
ابھی ہے دور ہر اک محفل طرب سے سخنؔ
دل و نظر میں ابھی اضطراب اتنے ہیں