سفر در سفر

’’نماز کی قضا ہے بیٹا، خدمت کی کوئی قضا نہیں۔‘‘


لاھور میں جب میں نے ایک بابا سے کہا کہ میں صوفی بننا چاہتا ہوں تو انہوں نے پوچھا، ’’کس لیے؟‘‘


میں نے کہا، ’’اس لیے کہ یہ مجھے پسند ہے۔‘‘


آپ نے کہا، ’’مشکل کام ہے، سوچ لو۔‘‘


میں نے عرض کیا، ’’اب مشکل نہیں رہا کیوں کہ اس کی پرائمری اور مڈل پاس کر چکا ھوں۔۔۔ پاس انفاس نفی اثبات کا ورد کر لیتا ہوں۔ اسم ذات کے محل کی بھی پریکٹس ہے۔ آگے کے راستے معلوم نہیں، وہ آپ سے پوچھنے آیا ہوں اور آپ کی گائیڈینس چاہتا ہوں۔‘‘


بابا نے ہنس کر کہا، ’’تو پھر تم روحانی طاقت حاصل کرنا چاہتے ہو، صوفی بننا نہیں چاہتے ہو۔‘‘


میں نے کہا، ’’ان دونوں میں کیا فرق ھے؟ ’’


کہنے لگے، ’’روحانی طاقت حاصل کرنے کا مقصد صرف خرق عادات یعنی کرامات کا حصول ہے اور یہ طاقت چند مشقوں اور ریاضتوں سے پیدا ہو سکتی ہے۔۔۔ لیکن تصوف کا مقصد کچھ اور ہے۔‘‘


’’وہ کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔


بابا نے کہا، ’’تصوف کا مقصد خدمت خلق اور مخلوق خدا کی بہتری میں لگے رہنا ہے۔ مخلوق الله سے دور رہنا رہبانیت ہے اور الله کی مخلوق میں الله کے لہے رہنا یہ پاکی ہے اور دین ہے۔‘‘


مجھے اس بابا کی یہ بات اچھی نہ لگی۔ بیچارہ پینڈو بابا تھا اور اس کا علم محدود تھا۔


میں اٹھ کر آنے لگا تو کہنے لگا، ’’روٹی کھا کر جانا۔‘‘


میں نے کہا، ’’جی کوئی بات نہیں، میں ساہیوال پہنچ کر کر کھا لوں گا۔‘‘


کہنے لگا، ’’خدمت سعادت ہے۔۔۔ ہمیں اس سے محروم نہ کرو۔‘‘


بابا اندر سے رکابی اور پیالی لے آیا۔پھر اس نے دیگچے سے شوربہ نکل کر پیالی میں ڈالا اور دال رکابی میں۔ چنگیر سے مجھے ایک روٹی نکال کر دی جسے میں ہاتھ میں پکڑ کر کھانے لگا۔ وہاں مکھیاں کافی تھیں، بار بار ڈائیو لگا کر حملے کرتی تھیں۔ بابا میرے سامنے بیٹھ کر مکھیاں اڑانے کے لیے کندوری ہلانے لگا اور میں روٹی کھاتا رہا۔ اتنے میں مغرب کی اذان ہوئی۔ کونے میں اس کے مریدوں نے تھوڑی سی جگہ لیپ پوت کر کے ایک مسجد سی بنا رکھی تھی۔ وہاں دس بارہ آدمیوں کی جماعت کھڑی ہو گئی۔


مجھے یہ دیکھ کر بڑی ندامت ہوئی کہ میں روٹی کھا رہا ہوں اور پیر مکھیاں جھل رہا ہے۔


میں نے کہا، ’’بابا جی آپ نماز پڑھیں۔‘‘


کہنے لگے، ’’آپ کھائیں۔‘‘


میں نے کہا، ’’جی مجھے بڑی شرمندگی ہو رہی ہے، آپ جا کر نماز پڑھیں۔‘‘


مسکرا کر بولے، ’’کوئی بات نہیں، آپ کھانا کھائیں۔‘‘


تھوڑی دیر بعد میں نے پھر کہا، ’’جناب عالی ! انہوں نے نیت بھی باندھ لی ہے۔۔۔ آپ نماز ادا کر لیں، قضا ہو جائے گی۔‘‘


بابا ہنس کر بولا،


’’نماز کی قضا ہے بیٹا، خدمت کی کوئی قضا نہیں!‘‘