صدیوں سے شب و روز یہی سوچ رہا ہوں

صدیوں سے شب و روز یہی سوچ رہا ہوں
میں کون خدا کون ہے میں بھول گیا ہوں


ایسے میں امنگیں ہی ذرا ساز اٹھائیں
دہلیز پہ پھر سے میں ارادوں کی کھڑا ہوں


ہر چند بھٹکنا پڑا بازار میں برسوں
ہر شکل کی تصویر مگر کھینچ چکا ہوں


آئے نہ یقیں آئے کسی اور کو مجھ پر
صحرائے خموشی میں بہت دیر پھرا ہوں


عارجؔ کبھی اترا ہوں اندھیروں کے جگر میں
سورج کے سمندر میں کبھی غرق ہوا ہوں