صدیوں سے انسان یہ سنتا آیا ہے
صدیوں سے انسان یہ سنتا آیا ہے
دکھ کی دھوپ کے آگے سکھ کا سایا ہے
ہم کو ان سستی خوشیوں کا لوبھ نہ دو
ہم نے سوچ سمجھ کر غم اپنایا ہے
جھوٹ تو قاتل ٹھہرا اس کا کیا رونا
سچ نے بھی انساں کا خوں بہایا ہے
پیدائش کے دن سے موت کی زد میں ہیں
اس مقتل میں کون ہمیں لے آیا ہے
اول اول جس دل نے برباد کیا
آخر آخر وہ دل ہی کام آیا ہے
اتنے دن احسان کیا دیوانوں پر
جتنے دن لوگوں نے ساتھ نبھایا ہے