صدائیں قید کروں آہٹیں چرا لے جاؤں
صدائیں قید کروں آہٹیں چرا لے جاؤں
مہکتے جسم کی سب خوشبوئیں اڑا لے جاؤں
بلا کا شور ہے طوفان آ گیا شاید
کہاں کا رخت سفر خود کو ہی بچا لے جاؤں
تری امانتیں محفوظ رکھ نہ پاؤں گا
دوبارہ لوٹ کے آنے کی بس دعا لے جاؤں
کہا ہے دریا نے وہ شرط ہار جائے گا
جو ایک دن میں اسے ساتھ میں بہا لے جاؤں
ابھی تو اور نہ جانے کہاں کہاں بھٹکوں
کبھی بہایا تھا دریا میں جو دیا لے جاؤں