صداۓ جاوداں
واہمے کی سسکیاں چاروں طرف
اور ان میں اک صدا سب سے الگ
جیسے صحرا میں گلاب
تیرگی میں جیسے ابھرے ماہتاب
موت کی پرچھائیوں میں جیسے روشن زندگانی کی لکیر
منکروں کے درمیاں جیسے مسیح
جیسے بپتا میں گھرے انسان کو
اپنے مرشد کا ملے آشیرواد
کورووں کے دل کا نرغہ اور اس میں جیسے کرشن
بانسری کی موہنے والی صدا
ہلکی ہلکی دھیمی دھیمی کیف زا
یہ صدا ہے عزم انساں کا پیام
عزم انساں کی صدا آفاقیت
عزم انساں کی صدا لا فانیت
عزم انساں کی صدا جمہوریت
یہ صدا ہے اک نوائے دلستاں
یہ صدا افلاک میں پرچم فشاں
یہ صدا ماحول میں ہر دم رواں
یہ صدا ہر دل کی دھڑکن سے عیاں
یہ صدا ہے روح جو ہے جاوداں
جسم مرتا ہے صدا مرتی نہیں