سچی شاعری
مولانا روم فرماتے ہیں شاعری جزویست از پیغمبری۔ مگر یہ وہ شاعری نہیں ہے جس میں انسان کے دل کی اور اس کے خیالات، عادات اور جذبات کی ہو بہو تصویر نہیں کھینچی گئی۔ بلکہ وہ شاعری ہے جو انسان کی زندگی میں رہنمائی کرتی ہے۔ اس کے اندرونی ہولناک جذبات کا خاکہ اڑاتی ہے اور ان سے نفرت دلاتی ہے۔ عمدہ اخلاق اور شائستہ عادات کی تعلیم دیتی ہے اور ہر وقت انسان کی اصلاح پر آمادہ رہتی ہے۔ یہی کام پیغمبروں کا ہے جو بنی آدم کی اصلاح کے لیے دنیا میں آئے اور دنیا کو امن و امان، صلح کل اور ہمدردی کی ہدایت کر گئے۔ اس لحاظ سے اگر ایسی شاعری کو پیغمبری کا جز بتایا جائے تو بالکل صحیح ہے اور اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ سچی شاعری دنیا اور اہل دنیا کے پاس نبوت کا پیغام لاتی ہے اور ان کے اخلاق اور جذبات کو راہ راست پر لگاتی ہے۔
ہماری موجودہ شاعری جو اردو زبان میں نظم کی بنیاد پڑنے کے وقت سے آج تک ایک ہی حالت پر ہے اور ا س میں سوائے ایک آدھ بزرگ کے کسی نے تبدیلی اور اصلاح کا نام نہیں لیا ہے، نہایت بری اور مضر اور حقیقت سے دور ہے۔ کیا فائدہ ہے اس بات کے بیان کرنے سے کہ ممدوح کا مکان آسمان سے باتیں کرتا ہے یا اس کی بنیاد تحت الثریٰ میں ہے؟ کیا مطلب ہے اس بات کے کہنے سے کہ اس کا گھوڑا فرشتوں کے ساتھ ہم پرواز ہے یا اس کی تلوار بجلی پر کاٹ کرتی ہے؟ کیا ضرورت ہے اس تعریف کی کہ تصور آسمان کی نو کرسیوں پر چڑھ کر ممدوح کی رکاب کو چومتا ہے؟ کیا حاجت ہے اس اپچ کی کہ ممدوح کی ہیبت سے وہ دشمن جو ابھی رحم مادر میں ہے دو ٹکڑے ہوئے جاتا ہے؟ یہ مثال ان فضول اور خارج از حقیقت مبالغوں کی ہے جو ہمارے شعرا اپنے قصائد میں لاتے ہیں۔
غزلوں پر غور کرو تو ان کی حالت قصائد سے بھی ابتر ہے۔ ان میں اکثر ایسے جھوٹے اور فحش اور ناپاک جذبات کی تصویر کھینچی جاتی ہے جو سننے والوں کے دل پر برا اثر ڈالتے ہیں اور ان کو دین و دنیا سے گمراہ کر دیتے ہیں۔ اسی طرح جس صنف کا خیال کرو، یا تو اس میں فضول مبالغے ہوں گے یا مضر اور قابل نفرت خیالات ہوں گے۔ زبان عمدہ، محاورات پاکیزہ، الفاظ دھلے ہوئے مگر معنی نفرت انگیز یا حیرت خیز ہیں۔ عرب کی قدیم شاعری میں اکثر فطرت کے حالات بیان کیے جاتے تھے مگر شاعر جب اپنے خاص ناگفتہ بہ واقعات کو سچائی کے ساتھ بلکہ فخر کے ساتھ بیان کرتا تھا تو سننے والوں کے دلوں پر اس کا برا اثر ہوتا تھا اور وہ بھی اخلاق کے دائرہ سے باہر نکلنے اور بیجا آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کو افتخار کا باعث خیال کرتے تھے۔
اس میں شک نہیں کہ ظہور اسلام کے بعد عرب کی شاعری میں جو انقلاب ہوا وہ اخلاق کے لحاظ سے تو عمدہ تھا مگر اس میں زور اور اثر باقی نہ رہا تھا۔ اس کے بعد جب عباسیوں کا دور دورہ ہوا تو شاعری اس لحاظ سے نہایت پست درجہ پر پہنچ گئی کہ الفاظ کے طمطراق اور شان و شوکت کے ساتھ ایسے مضامین باندھے جانے لگے جو مبالغہ اور خوشامد سے لبریز تھے اور ان میں واقعیت اور آزادی کا جوہر نہیں چمکتا تھا۔ عرب کی شاعری کے اسی دور میں ایرانیوں کی شاعری کا سورج طلوع ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ فارسی زبان کے بڑے بڑے شاعروں کے کلام میں تصوف اور اخلاق کا عنصر موجود ہے مگر اکثر شعرا الفاظ کی چمک دمک اور تخیل کی بھول بھلیاں میں رہ گئے اور شاعری کا مفید پہلو ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔
فارسی زبان بہ نسبت عرب کی زبان کے نہایت محدود تھی اور اس میں الفاظ کی تعداد بھی کم تھی مگر خیالات کے ادا کرنے کے لیے انہی الفاظ کی سیکڑوں بلکہ ہزاروں ترکیبیں نکل آئیں۔ بیشک اسی طریقہ سے زبان میں وسعت اور رنگینی پیدا ہو گئی مگر خیالات کا عمدہ اور پاکیزہ ہونا اور چیز ہے جس سے اکثر فارسی کے شعرا محروم رہے۔ فارسی شاعری کے اخیر دور میں جو اس کے انحطاط کا زمانہ تھا، اردو شاعری نے جنم لیا اور وہ بالکل اسی کے سانچے میں ڈھالی گئی۔ یہی سبب تھاکہ اردو زبان کے شاعروں نے جب آنکھ کھول کر دیکھا تو ان کی گردوپیش مدح و ذم حسن و عشق کے وہی نمونے موجود تھے جو ایران کی سرزمین سے لائے گئے تھے۔
ہم کو اس موقع پر نہ شاعری کی حقیقت بیان کرنی ہے نہ اس کی تاریخ لکھنی مقصود ہے، بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم اس بات کو ظاہر کر دیں کہ سچی شاعری سے جس کی بنیاد حقیقت اور واقعیت پر رکھی جاتی ہے اور جس میں اخلاق کے مفید پہلو دکھائے جاتے ہیں اور مضر اور ناپاک جذبات کا خاکہ اڑایا جاتا ہے، دنیا میں نہایت اعلیٰ درجہ کی اصلاح ہوتی ہے اور اس سے سوسائٹی کی حالت دن بدن ترقی کرتی ہے اور قوم اور ملک کو فائدہ پہنچتا ہے برخلاف اس کے جو شاعر مبالغوں اور فضول گوئیوں اور نفس کی بےجا امنگوں کے اظہار میں مشغول رہتے ہیں۔ وہ دنیا کے لیے نہایت خوفناک درندے ہیں۔ وہ لوگوں کو شہد میں زہر ملاکر چٹاتے ہیں اور انسان کے پردہ میں شیطان بن کر آتے ہیں۔ خدا ہماری قوم کو ایسے شاعروں سے اور ان کی ایسی شاعری سے نجات دے۔
اعلیٰ درجہ کے شاعر جو اخلاق کو نظم کے دل فریب سانچے میں ڈھالتے ہیں اور پیغمبری کاایک فرض ادا کرتے ہیں اور دنیا کے لٹریچر کو اپنی نصیحتوں اور ہدایتوں سے مالامال کرتے ہیں اور سوسائٹی کو حسنِ معاشرت کی تعلیم دیتے ہیں، وہ زندگی میں بھی فائدہ رسانی کرتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی ان کا فیض جاری رہتا ہے۔ ان کا نام ابدالآباد تک زندہ ہے اور ان کا کام ہمیشہ قابل تحسین و آفرین ہے۔ یورپ کا شاعر کیٹس اپنی ایک نظم میں ایسے شاعروں کی روحوں سے خطاب کرتا ہے اور کہتا ہے، ’’اے انسان کے جذبات اور انبساط کے مطربو! تم اپنی پاک روحیں اس دنیا میں چھوڑ گئے ہو، کیا تم آسمان پر بھی روحیں رکھتے ہو اور اس طرح ایک ہی وقت میں دو عالموں میں زندہ ہو۔ ہاں وہ روحیں جو عرش پر ہیں، آفتاب اور ماہتاب کی کرنوں سے مخاطب رہتی ہیں اور آسمانی چشموں کے حیرت انگیز شور سے ہم صدا ہیں، وہ بہشت کے درختوں کی ہلکی سرسراہٹ سے سرگوشیاں کرتی ہیں اور جنت کے سبز ہ زاروں میں، جن کے نازک درختوں کی کونپلوں کو ڈائنا کے ہرنوں کے نوجوان اور خوبصورت بچے چر رہے ہیں، آرام سے پاؤں پھیلائے بیٹھے ہیں۔
درخت اپنے پھولوں سے ان پر سایہ کرتے ہیں۔ گلاب کے پودے پھبک رہے ہیں اور ان کی خوشبو دور تک نرم ہوا کے جھونکوں میں بہہ رہی ہے۔ جو دنیاکے پرندوں کی طرح بےعقل اور خیال کے پتلے نہیں ہیں بلکہ ان کے گلے سے الہامی راگ نکلتے ہیں اور وہ آسمان کے گہرے اسرار بیاں کرتے ہیں اور قدرت کے دل فریب واقعات سناتے ہیں۔ تم آسمان پر زندہ اور زمین پر بھی زندہ ہو۔ تم جو اپنی پاک اور معصوم روحیں اس زمین پر چھوڑ گئے ہو، وہ ہم کو تمہاری تلاش کا رستہ بتاتی ہیں، جہاں سے گزر کر تم خوشی اور مسرت کی دنیا میں پہنچ گئے ہو۔ وہاں نیند ہے، نہ تھکن ہے۔ دنیا میں تمہاری روحیں فانی انسان کو برابر ہدایت کرتی ہیں اور ان کی ہفت روزہ زندگی کو، ان کی تکلیفوں اور ان کی خوشبوں کو، ان کی الفتوں اور ان کی نفرتوں کو، ان کی عزت اور ان کی غیرت کو، ان کی کمزوری اور ان کی قوت کو ظاہر کر رہی ہیں اور آسمان پر بسنے والو! تم ہر روز ہم کو عقل کی باتیں سکھاتے ہو اگرچہ ہم سے بہت دور جا بسے ہو۔‘‘