سبزہ سے سب دشت بھرے ہیں تال بھرے ہیں پانی سے

سبزہ سے سب دشت بھرے ہیں تال بھرے ہیں پانی سے
میرے اندر خالی پن ہے کس کی بے ایمانی سے


اب کے اپنی چھت بھی کھلی ہے دیواروں میں در ہیں بہت
بارش دھوپ ہوا جو چاہے آ جائے آسانی سے


سچائی ہمدردی یاری یوں ہم میں سے چلی گئی
جیسے خود کردار خفا ہو جائیں کسی کہانی سے


چہرے پر جو کچھ بھی لکھا ہے وہ سب ایک حقیقت ہے
آئینہ کیا دیکھ رہے ہو تم اتنی حیرانی سے


تقریریں دیتی ہیں دلاسے یا نفرت پھیلاتی ہیں
تو میں اور تاریخیں لیکن بنتی ہیں قربانی سے


خون کے رشتے خون میں ڈوبے ایک زمیں کے ٹکڑے پر
صدیوں کا اپنا پن بھولے ہم کتنی آسانی سے