سبھی دل شاد منظر چھوڑ آیا

سبھی دل شاد منظر چھوڑ آیا
سفر میں ہوں میں گھر ور چھوڑ آیا


تعلق تشنگی سے ہے پرانا
یہ سوچا اور سمندر چھوڑ آیا


مری قربانیاں کیا پوچھتے ہو
پرندہ ہوں اور امبر چھوڑ آیا


بھٹکنے کا تھا ایسا شوق مجھ کو
کہ میں دامان رہبر چھوڑ آیا


جہاں سے زندگی کی ابتدا کی
اسی جا موت کا ڈر چھوڑ آیا


مرمت میں بہت خرچہ تھا صاحب
میں اپنے خواب جرجر چھوڑ آیا


مجھے افرنگؔ دکھ اس بات کا ہے
میں اس کی آنکھوں کو تر چھوڑ آیا